سندھ کے ڈاکو…. "گلاب جسکانی اگر ڈاکو نہ ہوتا تو ایک بڑا انسان ہوتا۔۔۔”
تحریر… زاہد قریشی
"گلاب جسکانی اگر ڈاکو نہ ہوتا تو ایک بڑا انسان ہوتا۔۔۔”
یہ میں نے سوچا ۔۔۔ اور درست سوچا۔ وہ نوشہرو فیروز کے قریب کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا سردار تھا، مگر بعض اوقات وہ کچھ ایسا کر گزرتا کہ اس کے اندر کا ڈاکو شکست کھا جاتا اور ایک اچھا خاصا مہذب انسان اس کی آنکھ کی پُتلی سے باہر جھانکنے لگتا۔۔۔ اسی لیے میں نے ایک دن اس سے پوچھ لیا ۔۔۔۔
"سردار تم اس پستی میں کیسے آ گرے۔۔۔ ؟”
اس نے آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سانس کھینچی ، گویا جواب دینے کے لیے اپنی قوت مجتمع کر رہا ہو۔ پھر مریل سی آواز میں بولا ۔۔۔۔۔ "یار پنجابی رہنے دے، اب ان کہانیوں میں کیا رکھا ہے ۔۔۔ مگر میں نے اصرار جاری رکھا تو وہ گویا ہوا ۔۔۔۔۔۔
"نادر جسکانی ۔۔۔۔ ہمارے قبیلے کا پہلا نوجوان تھا جس نے سندھی وڈیرہ شاہی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔ وہ بہت کم عمر اور غربت کا مارا تھا، مگر جب اس نے وڈیرہ شاہی کے خلاف بندوق اٹھائی تو بڑے بڑے متکبر سر اس کے آگے سرنگوں ہونے لگے ۔۔۔ وہ لوگ جو اس کے باپ دادا کو اپنے سامنے چارپائی تو کیا، چٹائی پر بھی بیٹھنے کی اجازت نہ دیتے تھے، وہ ان کے سروں پر سوار ہو گیا۔ اس کے حکم پر جاگیر دار شام سے پہلے پہلے اس کے بتائے مقام پر روپوں کی پوٹلیاں پہنچانے پر مجبور تھے ۔۔۔۔ مگر اس کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ اس نے عام نوجوان کے دل سے وڈیروں کا خوف باہر نکال کر اسے عزت کے ساتھ جینے کا جذبہ عطا کیا تھا۔ اس زمانے میں جسکانی قبیلے کے کسی فرد کو، چاہے وہ سندھ کے کسی بھی علاقے میں رہتا ہو، کوئی بھی تنگ کرنے کی جرات نہ کرتا تھا
صدیوں سے سندھ میں جاری وڈیرہ شاہی کو یہ قطعاً منظور نہ تھا۔۔۔ لہذا درجنوں سیاسی اور خاندانی رقابتوں کے باوجود وڈیروں نے نادر جسکانی کے خلاف باہمی گٹھ جوڑ کر کے اسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ ایک دن وہ جام شورو کے ایک ہوٹل میں بیٹھا تھا کہ پولیس نے اسے گھیر کر پکڑ لیا۔ اس کی بندوق گاڑی میں پڑی تھی، لہذا وہ خاک مزاحمت کرتا ۔۔ ؟ پولیس اسے پکڑ کر باہر سڑک پر لائی اور نشان عبرت بنانے کے لیے اسے درجنوں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے گولی مار دی ۔۔۔ اگلے دن اخبارات میں "پولیس مقابلے” کی خبر کے ساتھ نادر جسکانی کی خون آلود لاش کی تصویر بھی نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ نادر کی عمر اس وقت محض 22 برس تھی۔
نادر کے قتل کے بعد جسکانی قبیلے کی پیٹھ پر وڈیروں کے جبر کا کوڑا مزید زور سے برسا۔۔۔ میں خصوصی طور پر نشانے پر تھا۔۔۔ کیونکہ نادر کے بعد میں دوسرا نوجوان تھا جو وڈیروں کے خلاف زبان کھولتا تھا۔۔۔ میں انسان کی عزت نفس اور برابری کا قائل تھا ۔۔۔۔ لہذا نادر کے قتل کے بعد میرا "زہر” نکالنے کا فیصلہ ہوا ۔۔۔۔ ہمارے گوٹھ کے قریب کے وڈیرے نے مجھے دھمکانا شروع کیا کہ میں اس کے اوطاق میں حاضر ہوں اور اسے اپنی وفاداری کا یقین دلاؤں ۔۔۔ مگر میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔ میں چونکہ کوئی کھیت مزدور نہیں تھا جو وڈیرے کی زمینوں پر کام کر کے پیٹ کی آگ بجھانے پر مجبور ہوتا۔ میں پولیس میں ملازم تھا اور سادہ طرز زندگی کے لیے میری تنخواہ میرے اہل خانہ کے لیے کافی تھی ۔۔۔
یہ شاید میری غلط فہمی تھی اور میں نے وڈیروں کی طاقت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کیا تھا ۔۔۔ میری آنکھ تب کھلی جب ایک چھٹی والے دن پولیس کی بھاری نفری نے میرے گھر چھاپہ مار کر مجھے گرفتار کر لیا۔۔۔۔ اگلے دن مجھ پر ڈکیتی کا پرچہ درج کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔۔۔ یہ سلسلہ تین ماہ تک جاری رہا ۔۔ آخر تھانیدار نے مجھ سے پچاس ہزار روپے طلب کیے۔۔۔ یہ ایک بہت بڑی رقم تھی، مگر میں کسی بھی طرح پولیس کے چنگل سے نکلنا چاہتا تھا ۔۔ میں نے گھر پیغام بھیجا کہ کسی بھی طرح اس رقم کا انتظام کریں ۔ انہوں نے سب جمع پونجی اور مال مویشی فروخت کر کے بمشکل یہ رقم پوری کی اور تھانیدار کے آگے لا ڈالی ۔۔۔ اس کے باوجود میری رہائی کے لیے پولیس کی نوکری سے استعفے کی شرط رکھ دی گئی تاکہ میں اور میرا خاندان ایک ایک نوالے کے لیے وڈیروں کا دست نگر ہو کر رہ جائے ۔۔۔ میں رہائی کے لیے یہ بھی کر گزرا ۔۔۔۔
باہر آیا تو میرے لیے دنیا اندھیر تھی ۔۔۔۔ میں سوچتا اور اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ۔ اس احساس نے مجھے نفسیاتی مریض بنا دیا۔ میں اکیلا بیٹھتا اور کڑھتا رہتا کہ اب میری نسلوں کا مقدر اس وڈیرہ شاہی کی غلامی ہے۔ اس دوران ہمارے علاقے میں ایک فرد قتل ہو گیا تو ایک بار پھر وڈیرے کا خفیہ ہاتھ حرکت میں آیا اور پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی۔۔۔ ایک بار پھر تشدد کی چکی میں مجھے پیسا گیا ۔۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اس کے اعصاب جواب دے گئے ہیں تو رشوت کے طور پر پیسوں کا مطالبہ کیا گیا۔ اب گھر میں بیچنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ لہذا دور دراز سے مانگ تانگ کر رقم پوری کر کے پولیس کے منہ میں ڈالی گئی ۔۔۔۔ رہائی ملی تو میں ایک خوف زدہ نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔۔۔ پولیس کی مار نے اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ رات کو نیند کی حالت میں بھی ڈر کر چیخنے لگتا ۔۔۔ اس ڈر سے کہ پولیس نہ پکڑ لے، میں کئی کئی دن گھر سے باہر ویرانے میں چھپا رہتا۔۔۔ میرا دم خم مکمل نکل چکا تھا اور میں کسی بھی طرح کی مزاحمت کرنے یا سر اٹھا کر جینے کی تمنا کرنے کے بھی قابل نہ رہا تھا
رہائی سے ڈیڑھ ماہ بعد کی بات ہے۔۔۔ میں نے پولیس کی گاڑیاں گاؤں سے باہر نکلتے دیکھیں جو شہر کی طرف دھول اڑائی جا رہی تھیں ۔۔۔۔ میں چونکہ شدت کے ساتھ خوف زدہ تھا، لہذا گاؤں کی طرف بھاگا تاکہ معلوم کر سکوں پولیس کیوں آئی تھی ۔۔۔۔ ابھی گاؤں سے باہر ہی تھا کہ ایک شخص سامنے آ گیا۔ میں نے اس سے پولیس کی آمد کا سبب پوچھا تو اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا تم کہاں تھے۔۔۔ ؟ اس کے انداز نے مجھے مزید خوف زدہ کر دیا ۔ میں نے روہانسا سا ہو کر اس سے پوچھا ۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔ کیا ہوا۔؟؟ وہ کہنے لگا، پولیس تمہاری ماں، بیوی اور بہنوں کو پکڑ کر لے گئی ہے ۔۔۔ میری تو جیسے جان ہی نکل گئی ہو، مگر پھر بھی میں گھر کی طرف بھاگا۔۔۔ گلی میں پہنچا تو دیکھا کہ میری جوان بہنوں کے دوپٹے گلی میں پڑے ہوئے تھے۔ میری بیوی کی ایک جوتی بھی وہیں تھی ۔۔۔ اور کچی گلی میں ان خواتین کو گھسیٹنے کے نشان مٹی پر دور تک نظر آ رہے تھے ۔۔۔ میں دوڑتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔۔ وہاں میرا چند ماہ کا شیر خوار بیٹا زمین پر پڑا تھا۔۔۔۔ رو رو کر اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔۔ وہ رونے کے لیے منہ کھولتا مگر آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔۔
مجھے زمین و آسمان گھومتے محسوس ہوئے ۔۔ ۔۔ میں نے بچے کو ساتھ جڑے گھر کی عورتوں کے حوالے کیا اور ڈوبتے سورج کے ساتھ کچے کی راہ لی ۔۔۔۔ تم سوچ سکتے ہو کہ مجھے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے چاہئے تھے۔ مگر قانون انصاف یہاں کوڑیوں کے بھاؤ بک رہا تھا ۔۔۔ کوئی زنجیر عدل نہ تھی جسے میں ہلاتا اور انصاف پاتا۔۔۔ کچے میں پہنچا تو اگلے دن ہی میاں قادر سرگانی سے ملاقات ہو گئی۔۔۔ میں نے اسے ساری بات بتائی۔ وہ میرا دکھ سمجھتا تھا ۔۔۔ سرگانی ڈاکوؤں میں معمر ترین شخص اور قابل قدر جانا جاتا تھا۔۔۔ اس نے میرے آنسو پونچھے اور مدد کا وعدہ کر کے میری ہمت بندھائی۔
کچھ دن بعد ہی میاں قادر سرگانی کو خفیہ ذرائع نے اطلاع دی کہ پولیس پارٹی کو "اچھی کارکردگی” کی داد دینے کے لیے وڈیرے نے اپنے ہاں رات کو ایک بڑی دعوت کا اہتمام کر رکھا ہے۔۔۔ رات کا اندھیرا پھیلنے سے قبل ہی ہم گھات لگا کر راستے میں بیٹھ گئے۔۔۔ پولیس کی گاڑی قریب آئی تو ہم نے ان پر فائر کھول دیا۔۔ ایک تھانیدار، ایک اے ایس آئی اور تین سپاہی موقعے پر مارے گئے۔۔۔ یہ سب کے سب وہی تھے جنھوں نے میرے گھر چھاپہ مارا تھا۔۔۔۔ ”
پہلے میں بے گناہ تھا ۔۔۔۔۔ مگر اب قاتل بھی تھا اور ڈاکو بھی ۔۔۔ لہذا میں سوچ چکا تھا کہ اب میری ماں، بہنیں اور بیوی جیل کی سلاخوں سے زندہ باہر نہیں آ سکیں گی ۔۔۔ مگر پنجابی تمہیں اندازہ ہے اس کے بعد کیا ہوا ۔۔۔۔؟
میں اس کو سننے میں اس قدر محو تھا کہ سوال سن کر چونک گیا۔۔۔۔ صرف اتنا کہہ پایا ۔۔۔۔ "نہیں”
گلاب جسکانی نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔
"پنجابی! اگلے دن کا سورج طلوع ہونے سے بہت پہلے پولیس میری ماں، بیوی اور بہنوں کو اپنی گاڑی میں میرے گھر چھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔ ”
” ….. اور میں ایسے ڈاکو بنا ہوں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاہد قریشی سینئر صحافی ہیں… ان کی یہ رپورٹ 1994 میں مختلف اخبارات و میگزین مین چھپی تھی…