
تحریر۔۔۔۔ محمد ذکریا
پہاڑ کی چوٹی پر رات کا بسیرا ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا، سفر کا آغاز حضرو سے کیا ، جو سطح سمندر سے تقریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ حضرو سے سری کوٹ کی طرف سفر شروع کیا، سریکوٹ سطح سمندر سے تین ہزار فٹ بلند ہے۔ سری کوٹ تک کا راستہ آسان تھا، لیکن اصل مہم کا آغاز اس کے بعد ہوا، جب کچے اور پتھریلے راستے پر اپنی موٹر سائیکل چلاتے ہوئے کیاری گلی تک پہنچے۔

کیاری گلی وہ آخری مقام تھا جہاں تک موٹر سائیکل جا سکتی تھی۔ یہاں سے میرا پیدل سفر شروع ہوا، جو گھنے جھاڑیوں اور پتھروں سے گھرا ہوا تھا۔ نیویگیشن کے بغیر راستہ کھو جانے کا بھی امکان تھا، مگر میں نے پہلے گوگل ارتھ پر اس راستے کا نقشہ بنایا تھا اور "ٹریک ریکارڈ” ایپلیکیشن کی مدد سے صحیح سمت اختیار کی۔ اس ایپلیکیشن نے ہر حرکت محفوظ کی، جیسے رفتار، بلندی، حرکت کا دورانیہ اور رکنے کا وقت۔ اس کے علاوہ، اس ایپلیکیشن پر ریکارڈ کیے ہوئے نقشہ دوسروں سے شیئر کر کے ان کی مدد بھی کر سکتے ہیں

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ایک بلند چوٹی پر پہنچا، جہاں سے تربیلا ڈیم کا ایک دلکش اور منفرد منظر دکھائی دے رہا تھا۔ شام ہوتے ہی میں نے وہاں کیمپ لگایا اور رات کا کھانا بنایا۔ تیز اور سنسنی خیز ہوائیں رات کے سکوت میں ایک دلچسپ ماحول پیدا کر رہی تھیں، جس میں قدرت کی خاموشی اور ہواؤں کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔
صبح کا منظر ایک خواب جیسا تھا۔ سورج جب پہاڑوں کے پیچھے سے دھیرے دھیرے طلوع ہو رہا تھا، تو آسمان سنہری رنگ میں نہا رہا تھا، اور اس روشنی نے تربیلا ڈیم کے پانی کو چمکا دیا تھا۔ نیچے پھیلے ہوئے ڈیم کی مٹی سے بنی دیوار اور دو پہاڑوں کے درمیان سے بہتا پانی صاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہ لمحہ دل کو سکون اور آنکھوں کو تراوت بخش رہا تھا۔
"ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا،
ابرِ کوہسار ہوں، گُل پاش ہے دامن میرا”

صبح چائے بنائی، ناشتہ کیا، اور اس حیرت انگیز منظر کو ایک آخری بار آنکھوں میں سمو لیا۔ یہ صبح کا وقت واقعی دلکش تھا، اور تربیلا ڈیم کا منظر ایسا تھا کہ انسان وقت تھم جانے کی خواہش کرے۔
ساڑھے آٹھ بجے کے قریب واپسی کا سفر شروع کیا۔ اس پورے سفر کے دوران قدرت کے حسین مناظر اور اس دلکش تجربے کے بارے میں سوچتا رہا ۔ یہ مہم یادوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گی، اور اپنے ساتھ نہ صرف خوبصورت مناظر بلکہ زندگی بھر کی یادیں بھی سمیٹیں