سانحہ بلدیہ فیکٹری۔۔ اعلی عدلیہ پر آج بھی سوالیہ نشان
تحریر۔۔۔ فہد خالد
بلدیہ فیکٹری سانحہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی میں پیش آیا، جب بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں جان بوجھ کر آگ لگائی گئی، جس کے نتیجے میں تقریباً 260 نہتے مزدور زندہ جل کر راکھ ہو گئے۔
اس وحشتناک سانحے کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے غنڈوں نے فیکٹری مالکان سے کروڑوں روپے بھتہ طلب کیا تھا، اور جب انکار کیا گیا تو فیکٹری کو آگ لگا دی گئی۔
یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ جو جماعت سفاکیت، بھتہ خوری اور دہشت گردی جیسے مکروہ جرائم میں ملوث رہی، وہ آج بھی ہر حکومت کا حصہ بنتی رہی ہے—چاہے وہ تحریک انصاف کی حکومت ہو یا مسلم لیگ نون کی۔ ایک ایسی جماعت، جس نے انسانیت کے خلاف ایسے سنگین جرائم کیے، اُس کا اقتدار میں آنا اس قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ عوام کے خون سے ہولی کھیلنے والے آج اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔
پاکستانی عدلیہ اس تمام معاملے میں مکمل ناکامی کا مظہر بنی ہوئی ہے۔ عدلیہ کا کام عوام کو انصاف فراہم کرنا تھا، مگر یہاں عدلیہ بااثر افراد کے مفادات کا تحفظ کرتی نظر آتی ہے۔ سانحہ بلدیہ کے متاثرین آج تک انصاف کے منتظر ہیں، مگر عدلیہ کی یہ ناکامی ہماری اجتماعی زندگی پر ایک بدترین داغ ہے۔
ہمیں اس امر کے حوالے سے خود احتسابی بھی کرنی چاہیے کہ جو جماعتیں صرف اپنی کرسی اور اقتدار کے لیے ایک خونخوار اور سفاک جماعت کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہیں، وہ عوام کی خیرخواہ کبھی نہیں ہو سکتیں۔ قوم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتدار کے کھیل میں شامل ان عناصر سے خیر کی امید رکھنا بے سود ہے۔
حبیب جالب نے اس نظامِ عدل پر خوب کہا تھا:
"دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا”