
سینیٹ اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہوا ۔ جسمیں ممبران نے اہم سوالات اٹھائے ۔
سینٹر انوشہ رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہم ریٹائرڈ آفیشلز کو کیوں نوکری پر لگا رہے۔ ہمارے ملک میں پہلے سے بہت بے روزگاری ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کے ایک مکمل طریقہ کار سے سینئر آفیشل لگایا جاتا ہے۔۔۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسی ہے کہ جو سرکاری افسر کسی ادارے کے بورڈ اف ڈائریکٹرز کا رکن ہوگا تو ان کا مالی اعزازیہ میں سے صرف دس ہزار روپے ملیں گے باقی رقم سرکاری خزانے میں جائیں گے۔ پی ٹی سی ایل بورڈ کے رکن کو پانچ ہزار ڈالرز اعزازیہ ملتا ہے
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی رکن پارلیمنٹ۔۔الگ سے تنخواہ والی سرکاری ملازمت نہیں کر سکتا لیکن کسی ادارے کے بورڈ میں شامل ہوسکتا ہے۔وضاحت کرتا چلوں کہ کسی جج یا کسی اور سرکاری عہدے دار کو قانون سازی کے ذریعے مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی۔ صرف آرمی، نیوی اور فضائیہ کے سربراہوں کی مدت ملازمت کی معیاد کا تعین کیا گیا ہے
سینٹر دنیش کمار نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا چیرمین کو آٹھ ہزار ڈالر پر میٹنگ دی جاتی ہےممبرز کو 5 ہزار ڈالر پر میٹنگ دی جاتی ہے۔ جبکہ ہم سینٹرز کو 17 لاکھ سالانہ دیے جاتے ہیں۔ ایک بیوروکریٹ کو 22 لاکھ ماہانہ دیا جاتا ہے۔۔ایسا کیوں ہے کہ ان سب کے اتنی مہربانی ہو رہی ہے۔۔
اس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا یہ بات ہماری نوٹس میں ہے ۔ جو رقم واپس آتی ہے تو وہ کسی کے جیب میں نہیں جاتی بلکہ حکومت کے خزانے میں واپس آتی ہے۔۔ ان سب چیزوں کا حساب ہوتا ہے کوئی جیب میں پیسے نہیں ڈال سکتا۔۔