
Iran book fair
تحریر: سید کوثر عباس موسوی
مئی کے مہینے میں جمہوری اسلامی ایران میں چھتیسواں بین الاقوامی کتب میلہ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس سے قبل سن 2008ء میں ایران کے انیسویں بین الاقوامی کتب میلے میں شرکت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اگرچہ ہم کراچی والوں کو ایران کی ہر سڑک، ہر گلی اور ان کے اطراف کی بلند و بالا عمارات اپنی تمام تر تہذیبی وجاہت کے ساتھ متاثر کرتی ہیں، تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سرزمین ایران ایک قدیم تہذیب و تمدن کی امین ہے۔ یہاں ایسے بے مثال تاریخی و ثقافتی مقامات پائے جاتے ہیں جن کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں ایران کے 26 تاریخی و قدرتی مقامات شامل کیے جا چکے ہیں، جن میں سے ہر ایک کے بارے میں متعدد کتب تصنیف ہو چکی ہیں۔

تاہم، زیر نظر مضمون کا موضوع ایران کا بین الاقوامی کتب میلہ ہے، اس لیے ہماری گفتگو کا محور بھی "کتاب” ہی رہے گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سے ہر سال مئی کے مہینے میں وزارتِ ثقافت و ارشاد اسلامی کے زیرِ اہتمام ایک عظیم الشان بین الاقوامی کتب میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ حسبِ روایت، امسال بھی یہ میلہ 7 سے 17 مئی تک تہران کے مصلیٰ امام خمینیؒ میں منعقد ہوا، جہاں نماز جمعہ سمیت دیگر مذہبی، ثقافتی اور سماجی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں۔
ایران میں 2 پاکستانی قتل ،قاتلوں نے اہلخانہ سے 7 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا
مصلیٰ امام خمینیؒ نہ صرف فنِ تعمیر کا شاہکار ہے بلکہ ایران میں اسلامی انقلاب کی تہذیبی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ 600 ہزار مربع میٹر پر مشتمل اس عظیم الشان کمپلیکس میں ثقافت و روحانیت کی جھلکیاں جابجا نظر آتی ہیں۔ اس کا ڈھانچہ چودہ معصومینؑ کی نسبت سے 14 میناروں، بارہ اماموںؑ کی نسبت سے 12 صحنوں اور پنجتن پاکؑ کی نسبت سے پانچ داخلی دروازوں پر مشتمل ہے۔ مرکزی محراب کی بلندی 72 میٹر ہے جو شہدائے کربلا کی یاد دلاتی ہے، جبکہ مرکزی گنبد کی اونچائی 63 میٹر ہے جو رسول خداﷺ کی عمر مبارک کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
کتب میلے کے مرکزی ہال کو عام کتابوں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا، جہاں تقریباً 2700 اسٹالز قائم کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کی معلوماتی کتابیں، اسکول کورسز، کالج و جامعات کی نصابی کتب اور ڈیجیٹل کتابوں کے لیے علیحدہ ہالز مختص تھے۔ مرکزی ہال کا بالائی حصہ انٹرنیشنل پبلشرز اور غیر ملکی مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔
اس سال غیر ملکی ہال میں جن ممالک کے اسٹال موجود تھے ان میں عراق،بحرین،عمان،قطر،ترکی،لبنان،یمن،تاجیکستان،روس،ہندوستان ،وینزویلا،قازقستان،میکسیکو اور دیگر ممالک شامل تھے ۔ان تمام ممالک کے اسٹالوں کے درمیان پاکستان کا اسٹال موجودتو تھا جس پر نیشنل بک فاونڈیشن کا بورڈ بھی لگاہوا تھا لیکن خالی پڑا ہوا تھاکیونکہ پاک بھارت حالات کشیدگی کی وجہ سے کوئی نہیں پہنچاتھاجب کہ ہندوستان کا نہ صرف اسٹال لگاہوا تھا بلکہ بہت سارے کتابوں کے شائقین بھی وہاں موجود تھے ۔البتہ سنے میں آیا ہے کہ پاکستان کا وفد آخری دنوں میں پہنچا تھا۔
ایران اور پاکستان کا باہمی تجارت کو 5 سالوں میں 10 بلین ڈالرز تک بڑھانے پر اتفاق
اس سفر کے دوران یہ معلوم ہوا کہ اسلامی جمہوریہ ایران گذشتہ چند برسوں سے ہر سال کسی ہمسایہ یا دوست ملک کو بطور مہمانِ خصوصی دعوت دیتا ہے۔ اس حوالے سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اب تک افغانستان، عمان، روس، اٹلی، سربیا، چین، قطر، تاجیکستان، ہندوستان، اور امسال عراق کو یہ اعزاز بخشا جا چکا ہے۔
یہ فہرست دیکھ کر ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ ایران اور پاکستان نہ صرف جغرافیائی ہمسایہ ہیں بلکہ دینی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر بھی بے شمار مشترکات کے حامل ہیں۔ پاکستان کے وجود میں آنے (1947ء) پر سب سے پہلے جس ملک نے اسے تسلیم کیا وہ ایران تھا۔ اسی طرح 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں قائم ہونے والی انقلابی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے ہی تسلیم کیا۔ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں دونوں ممالک اکثر ایک دوسرے کے مؤقف کی غیر مشروط حمایت کرتے آئے ہیں۔
لیکن ان تمام تاریخی قربتوں کے باوجود جب بین الاقوامی کتب میلے کے مہمانانِ خصوصی کی فہرست میں پاکستان کا نام نظر نہ آیا تو دل میں ایک خلش سی محسوس ہوئی۔ تب یکایک ماضی کی ایک تلخ یاد تازہ ہو گئی: کراچی کے بین الاقوامی کتب میلے میں چند سال قبل پیش آنے والا وہ افسوسناک واقعہ، جب مقامی انتظامیہ نے ایک انتہاپسند گروہ کی شکایت پر بغیر تحقیق، تمام سفارتی آداب کو نظرانداز کرتے ہوئے ایران کے ثقافتی مرکز کے اسٹال کو بند کر دیا تھا۔ یہ واقعہ نہ صرف غیر پیشہ ورانہ طرزعمل کی عکاسی کرتا تھا بلکہ ایک عظیم دوست ملک کے ساتھ بدسلوکی کے مترادف تھا۔ ایسے پس منظر میں ایران سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہمیں اپنے بین الاقوامی کتب میلے میں مہمانِ خصوصی بنائے، شاید حقیقت سے نظریں چرانا ہو۔

تاہم اس کے باوجود، پاکستان میں کتاب سے وابستہ اداروں، ناشرین اور مصنفین کے لیے ایران کے بین الاقوامی کتب میلے میں سیکھنے کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ کتاب سازی کے فن میں ایران سے کسی دوسری قوم کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ عام کتب کی بات ہو یا نفیس نسخوں کی، ایران کا معیار بے مثال ہے۔ جب کسی اسٹال پر قرآن مجید، نہج البلاغہ، صحیفۂ سجادیہ، دیوانِ حافظ، رباعیاتِ خیام،رباعیات عطار نیشاپوری ،کلیات شمس تبریز، کلیاتِ اقبال لاہوری اور دیگر فن پارے ہاتھ میں لیے جائیں تو ان کی ظاہری خوبصورتی اور باطنی معنویت دیکھ کر انسان مبہوت ہو جاتا ہے۔
صرف کتابیں ہی نہیں، بلکہ ہر اسٹال کی تزئین و ترتیب بھی اس ذوق جمال کی آئینہ دار تھی جس کی جڑیں ایرانی تہذیب میں پیوست ہیں۔ امسال کتب میلے کا ماٹو "بخوانیم برای ایران” یعنی "آئیے، ایران کے لیے مطالعہ کریں” تھا، جو نہ صرف کتب بینی کو قومی فریضہ قرار دیتا ہے بلکہ مطالعے کو حب الوطنی سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ ماٹو مصلیٰ امام خمینیؒ سے لے کر تہران کے چپے چپے تک، ہر سائن بورڈ پر اپنی پرکشش گرافکس کے ساتھ نمایاں نظر آ رہا تھا۔
اس کتب میلے کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ ہر اسٹال پر صرف اس مخصوص ادارے کی کتابیں رکھی گئی تھیں، جس کی وجہ سے کتابیں تلاش کرنا نہایت سہل ہوگیا تھا۔ علاوہ ازیں، میلے کے چاروں طرف مخصوص کارنر قائم کیے گئے تھے جہاں عملہ کسی بھی موضوع، عنوان یا ناشر کے متعلق دریافت کرنے پر کمپیوٹرائزڈ پرچی فراہم کرتا تھا جس پر پبلشر، اسٹال اور گلی نمبر درج ہوتا تھا۔
کتب میلے کی ایک اور انفرادیت یہ تھی کہ یہاں صرف کتابیں نہیں، بلکہ بیک وقت مختلف علمی، ادبی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی نشستیں بھی جاری رہتی تھیں۔ انٹرنیشنل ہال میں واقع سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامی کے اسٹال پر غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ شدہ کتب کی تقریباتِ رونمائی کا سلسلہ جاری رہا۔ جناب اکبری کے بقول، اس سال 40 کتب کی رونمائی عمل میں آئی۔ 9 مئی کو راقم کی ترجمہ کی گئی 4 کتب کی بیک وقت تقریب رونمائی بھی منعقد ہوئی، جن میں:
- پروفیسر جملیہ علم الہدیٰ (سابق صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ) کی کتاب "نسوانی زندگی کا فن”
- محسن احمدپور خمینی (ماہر نفسیات و خاندانی امور) کی "نسوانیت کا سلیقہ”
- آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی کتاب "رمضان المبارک کی برکتوں کے سائے میں”
- فرانسیسی مصنفہ کلر ژوبرت کی بچوں کے لیے لکھی گئی کتاب "لینا لونا”
شامل تھیں۔
اس سفر کے دوران 11 مئی کو راقم سمیت مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کو ایران کے ایک ممتاز علمی و تحقیقی مرکز "دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی” کا خصوصی دورہ کرایا گیا۔ یہ ادارہ درحقیقت اسلامی دائرۃ المعارف کا وہ جامع منصوبہ ہے جس کی نوعیت Encyclopedia Britannica جیسی ہے۔ معروف محقق سید علی آل داوود کے مطابق، یہ دائرۃ المعارف 50 جلدوں پر مشتمل ہوگا جن میں سے اب تک 26 جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ عربی ترجمے کی 6 جلدیں، اور انسٹیٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹڈیز لندن کے زیراہتمام انگریزی ترجمے کی 11 جلدیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ سید علی آل داوود کے مطابق پاکستان کے بعض اداروں سے اردو ترجمے پر بات چیت جاری ہے، مگر تاحال کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہو پایا۔ اللہ کرے یہ مرحلہ بھی جلد طے پا جائے، کیونکہ یہ اردو زبان کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔