
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کیس
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ کیس آئینی اور عوامی اہمیت کا حامل ہے۔ دلائل کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ عدالتی اختیارات میں کمی کا خیال آپ کو کہاں سے آیا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مجھے کوئی خیال نہیں آیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے نشاندہی کی کہ 187 کو 175 کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا اور ان کی نظر میں عدالتی اختیارات پر "اچھا خاصا تقسیم پڑا ہے۔ فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم وضاحت کے لیے نہیں کی گئی۔ تاہم جسٹس امین الدین خان نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نہ ترمیم اور نہ ہی آرٹیکل 184(3) آپ کے کیس سے متعلقہ ہے۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سارا کیس ہی اسی سے متعلق ہے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہم آپ کو پرانے والے 187 کے تحت ہی ڈیل کریں گے اور آپ کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آج دلائل ختم کرنے ہیں، بصورت دیگر عدالت خود دلائل مکمل تصور کرے گی۔ جسٹس امین الدین نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ کیا 185 میں 187 استعمال ہوسکتا ہے؟ وکیل نے جواب میں کہا کہ 175(2) سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے پاس تحریک انصاف کو انصاف دینے کا آپشن ہی نہیں تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے پاس مکمل ریلیف دینے کا اختیار موجود ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مکمل انصاف فراہمی میں فریق بنے بغیر ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے کبھی کسی تیسرے فریق کو ریلیف دیا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ بلکل سر، آپ کا اپنا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے اختیارات کو کم کیوں بتایا جا رہا ہے؟ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ کسی ضروری فریق کو شامل کر لے۔ فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گیارہ ججز نے تحریک انصاف کو ریلیف دیا اور عدالت کے سامنے ایشو عوام کی خواہش کا تھا۔ تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ایشو اتنا آسان نہیں۔ ان 80 افراد نے آج تک سنی اتحاد کونسل کے نہ ہونے کا موقف نہیں اپنایا۔ فیصل صدیقی نے جوابی سوال کیا: "کل سپریم کورٹ پر کوئی قبضہ کرلے تو کیا عدالت 40 سال بعد اس کی ہو جائے گی؟ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا یہ قبضہ پھر آپ نے 80 لوگوں پر کیا۔ آپ کہتے ہیں الیکشن کمیشن غلط ہے، ہائیکورٹ غلط ہے، تو اپنا بھی بتائیں؟ فیصل صدیقی نے تسلیم کیا کہ ہم نے غلطی مانی ہے۔ جس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے آپ نے غلطی مانی ہے تو پھر سامنا کریں۔ آپ چاہتے ہیں جو ہے ہی نہیں وہ نیا ہم کر دیں؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جو فاطمہ جناح مانگ رہی تھی وہی ہم مانگ رہے ہیں۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ کسی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے انکار نہیں کیا اور یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے۔ آپ چاہتے ہیں سارے واقعات کو نظر انداز کر کے آپ کو ریلیف دیں۔ جسٹس مندوخیل نے بلوچستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں دو فریقین کے جھگڑے میں زمین سرکار کی نکلتی تھی اور عدالتیں سرکار کے نام فیصلہ دیتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے کہ ہم آزاد ہیں، ان کی آزادی کیسے سلب کریں؟ پارلیمنٹرینز پڑھے لکھے اور قابل لوگ ہوتے ہیں۔ کیا ہم کسی جماعت کے لیڈر کو آزاد حیثیت میں لڑنے سے روک سکتے ہیں؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ کتنے ارکان نے بیان حلفی اور دیگر دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے حکام کو روسٹرم پر طلب کیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا آپ نے 39 امیدواروں کو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا؟ جس پر حکام نے جواب دیا کہ نوٹیفکیشن عدالتی حکم پر جاری کیا گیا تھا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔ جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کیا یہ نشستیں بچ گئی تھیں؟ جس پر الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ جن نشستوں پر تنازعہ تھا ان کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکمنامے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کیا اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو دی گئی ہدایات پر عمل ہوا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ تمام ممبران نے اپنے کوائف اور پارٹی وابستگی جمع کرائی تھی۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیوں نہ کیا؟ الیکشن کمیشن یہاں آ کر کہتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں کریں گے اور نظرثانی بھی دائر کریں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 39 ممبران کو پی ٹی آئی کے طور پر نوٹیفائی کیا لیکن مخصوص نشستیں نہیں دیں۔ انہوں نے سوال کیا آپ نے 39 ممبران کے تناسب سے مخصوص نشستیں دی ہیں؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ہم مخصوص نشستیں اس فارمولے کے تحت نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ باقاعدہ فارمولا ہوتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کون سا فارمولا ہوتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ اگر فارمولا ہے تو باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں دی گئیں؟ فیصلہ ہو لینے دیتے، پھر سب کو مخصوص نشستیں دیتے۔ ڈی جی الیکشن کمیشن نے کہا کہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دے دی گئی ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا یہ تو پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کوئی تو تقدس ہونا چاہیے۔ کیس کیا ہے یہ مسئلہ نہیں، ہار جائیں گے تو ہار جائیں گے، بات سپریم کورٹ کے وقار اور مستقبل کی ہے۔ الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواستیں تو فوراً مسترد ہونی چاہئیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ یہ سب ہمارے ادارے ہیں، آج میں بیٹھا ہوں کل کوئی اور بیٹھے گا۔ اگر کوئی رول، ایکٹ یا آئین کے خلاف ہو تو کیا اسے ماننا ضروری ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا: میرے خیال میں جب تک وہ کالعدم نہ ہو جائے، ماننا ضروری ہے۔ جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا پھر تو الیکشن کمیشن نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرے ہوتے ہوئے آپ سپریم کورٹ کو لتاڑیں۔ آخر میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔