
پاکستان سکالر کے خیالات
پاکستانی سکالر عدنان شاہ کا کہنا ہے کہ جب میں عجائب گھر میں داخل ہوا تو ایسا لگا جیسے کسی قدیم محل میں قدم رکھ رہا ہوں۔ چائے کی خوشبو اور تاریخی ماحول مجھے گزرے وقت کے سفر پر لے گیا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عدنان شاہ اس وقت چین کے ساحلی شہر چھنگ ڈاؤ میں اوشن یونیورسٹی آف چائنہ میں مینجمنٹ کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور 2 سال سے زیادہ عرصے سے چین میں مقیم ہیں۔ وہ چھنگ ڈاؤ کے سیاحتی فروغ کے سفیر کے طور پر چین-پاکستان ثقافتی تبادلے کے سرگرم حامی بن چکے ہیں۔ حال ہی میں چھنگ ڈاؤ کے چائے کی پیداوار کے علاقے لاؤشان کے دورے میں انہوں نے چائے بنانے کے تمام مراحل میں حصہ لیا جس میں نامیاتی چائے کے باغ میں نازک پتے ہاتھ سے چننے، چائے چکھنے کے فن اور چینی چائے کی ثقافت کی عظیم تاریخ شامل ہے۔
پاکستانی نوجوان نے لذیذ جنوبی ایشیائی پکوان چین بھر میں متعارف کرا دیئے

چین کے مشرقی صوبےشان ڈونگ کے شہر چھنگ ڈاؤ میں چینی چائے بنانے کے ماہر کوانگ شِن نے چائے کے یادگار تجربے کے دوران شاہ کو روایتی عمل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ وہ رولنگ تکنیک ہے جو لاؤشان چائے بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ لاؤشان چائےغیر مادی ثقافتی ورثہ ورکشاپ میں تازہ تیار کردہ چائے کی پتیاں اور صدیوں پرانی روایات کی خوشبو ملی ہوئی تھی جو سیاحوں کو چین کی قدیم چائے کی ثقافت کا ذائقہ فراہم کرتی ہے۔ کوانگ شِن نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے شیاؤ یانگ چھون ٹی میوزیم میں 500 سے زائد بین الاقوامی مہمانوں کی میزبانی کی۔ چائے اب ثقافتی تبادلے کا موثر ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔
پاکستان میں بھی چائے روزمرہ زندگی کا اہم حصہ ہے۔ شاہ نے کہا کہ صبح سے شام تک چائے ہر معمول کا حصہ ہوتی ہے جس میں ناشتہ، وقفے اور مہمانوں کی تواضع شامل ہیں۔ تاہم پاکستانی دودھ اور چینی کے ساتھ چائے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ چین میں چائے عموماً بغیر شکر اور خالص ذائقے میں پی جاتی ہے، خاص طور پر سبز چائے اور کالی چائے۔ ذائقے اور پینے کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں مگر چائے دونوں ممالک میں لوگوں کو جوڑتی ہے اور ثقافتی شناخت کی عکاس ہے۔
چین کے زرعی سائنسی شہر یانگ لنگ میں 300 کے قریب پاکستانی گریجویٹس کا خیرمقدم
چین کو دنیا میں چائے کی جائے پیدائش کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہزار سال سے زیادہ عرصے سے چینی چائے قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے دنیا کے تمام کونوں تک پہنچی اور ثقافتی تبادلے اور سفارت کاری کی علامت بن گئی۔ آج بھی چین کی چائے کی صنعت ترقی کر رہی ہے۔ 2024 میں چائے کی پیداوار 37 لاکھ 40 ہزار ٹن تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال سے 5.5 فیصد زیادہ ہے۔ اب یہ صنعت سیاحت اور دیہی ترقی سے منسلک ہو چکی ہے اور چائے پر مبنی ماحولیاتی دورےاور ثقافتی تجربات سیاحوں کو چھنگ ڈاؤ جیسے چائے پیدا کرنے والے علاقوں کی طرف راغب کر رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے 2023 میں تقریباً 65 کروڑ ڈالر کی چائے درآمد کی جس سے وہ دنیا کے بڑے چائے درآمد کنندگان میں شامل ہوا ہے۔ تاہم شاہ نے نشاندہی کی کہ پاکستان اس وقت چین سے بہت کم مقدار میں چائے درآمد کرتا ہے جس کی وجہ ذائقے کی ترجیحات اور قیمتوں کا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے تحت قریبی تعاون کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ ہم مشترکہ منصوبوں اور چائے کی مصنوعات کی ترقی پر کام کرسکتے ہیں۔
فروری 2025 میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔ مشترکہ اعلامیے میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو آگے بڑھانے اور پاکستان کی 5 ایز ترقیاتی حکمت عملی کے مطابق تعاون کے 8 بڑے اقدامات پر زور دیا گیا۔ ان میں 5 اہم راہداریوں کا قیام شامل ہے جو ترقی، روزگار، اختراع، ماحولیات اور کھلے پن پر مشتمل ہیں جن کا مقصد سی پیک کی ترقی ہے۔ دونوں ممالک نے زرعی تعاون کے ایک نئے دور کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا۔
عدنان شاہ نے کہا کہ پاکستان کے پاس وسیع زرعی زمینیں ہیں۔ ہم چین کی جدید زرعی ٹیکنالوجی اور نظم و نسق سے سیکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ اپنی زراعت اور لائیو سٹاک کو عالمی معیار پر لا سکیں۔پہلے ہی زرعی تعاون کے کئی منصوبے جاری ہیں جو تحقیق، تجارت اور ترقی میں مشترکہ عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستانی خاتون نے چین کے دیہی علاقے کو اپنا مسکن بنالیا
عدنان شاہ نے کہا کہ چائے سکون دینے والی تاثیر رکھتی ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے منسلک ہونا آسان بناتی ہے۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ چھنگ ڈاؤ میں رہتا ہوں۔ یہ ایک خوبصورت اور قابل رہائش شہر ہے۔ مجھے امید ہے کہ مزید چینی دوست مستقبل میں پاکستان آئیں گے اور میں اپنے وطن میں مزید لوگوں کو چینی چائے اور ثقافت پیش کرنا چاہتا ہوں۔
عدنان اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ چین-پاکستان زرعی اور بینکاری تعاون سے متعلق تحقیق میں بھی سرگرم ہیں۔ انہوں نے ڈیجیٹل کرنسی کے تعاون پر مبنی کچھ تحقیقی مقالے بھی شائع کئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ میں چین سے حاصل کردہ علم اور تجربہ واپس پاکستان لے جاؤں تاکہ ملک کی معیشت اور دیہی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکوں۔