
smart
رپورٹ ۔۔۔ مقصود منتظر
اسلام آباد
عالمی و سفارتی محاذ پر کشمیرایشو کو ہائی لائٹ کرنا ہے توکچھ بھارت سےسکھیو۔ یہ تازہ اور غیر متوقع جملہ گزشتہ شام اسلام آباد میں واقع کشمیر کونس کے نئے حال میں گونجتا رہا۔ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کشمیر پر قابض غاصب بھارت سے کچھ سیکھنے کی صلح کس نے دی۔ یہ جملہ پاکستان میں پاکستان و آزاد کشمیر کے سیاست دانوں کے سامنے کسی کو کیوں کہنا پڑا آئیے آپ کو بلا تاخیر اس کی تفصیل بتاوں۔
یہ غیر متوقع جملہ دراصل امریکا سے پاکستان آئے ہوئے کشمیری رہمناغلام نبی فائی نے مسلم کانفرنس کے زیر اہتمام اسقتبالیہ تقریب میں کئی بار دہرایا اور اپنے طویل خطاب کا اختتام بھی اسے جملے سے کیا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارتی سرگرمیاں کے دوران کئی اہم ملاقاتوں اور واقعات کا حوالہ دیتے ہوئےیہ جملہ کئی بار دہرایا۔
غلام نبی فائی کئی دہائیوں سے عالمی سطح پرمسئلہ کشمیرکواجاگر کرنے کیلئے امریکا میں سرگرم ہیں۔ وہ امریکا میں ہی مقیم ہیں اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو امریکا ،برطانیہ ، یورپ اور افریقہ سمیت دیگر ممالک میں اجاگر کرنے کی پاداش میں جیل بھی جاچکے ہیں۔
گزشتہ روز مسلم کانفرنس نےغلام بنی فائی کےاعزاز میں ایک اسقتبالیہ دیا تو انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خارجی محاذ پر پاکستان اور بھارت کی سرگرمیوں کا موازانہ پیش کیا۔ انہوں نےایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد انہوں نے نیو یارک میں چین کے سفیر سے ملاقات کی۔ اس دوران چینی سفیر نے سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے قرارداد لانے کا ذکر کیا۔
چینی سفیر نے کشمیری رہنما کو بتایا وہ 16 مئی کو قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے ۔چونکہ قرار داد کو پاس کرانے کیلئے سلامتی کونسل کے تمام ممبران ممالک کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے چینی سفرا نے ممبران ممالک سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا امریکا ویٹو کرکے ان کی قرار داد کی مخالفت کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور غاصبانہ اقدام کے بعد بیشتر اہم ممالک سے رابطہ کرچکا تھا کہ وہ چین کی قرارداد کی حمایت نہ کریں ۔ ایک تو بھارت نے سلامتی کونسل کی ہی قراردادوں کو روندا تھا اور اوپر سے اسی کونسل کے ممبران کو اپنے غیر قانونی اقدام پر قائل کرنے کی بھی کوششیں کیں ۔
ڈاکٹر فائی کہتے ہیں جب یہ واقعہ چینی سفیر سنا رہا تھا تو انہوں نے برملا کہا ، لرن فرام انڈیا یعنی انڈیا سے سیکھو۔ کشمیر پر اپنے بیانیہ مضبوط بنانا ہے تو انڈیا سے سیکھو، کہ کس طرح کو غیر قانونی اقدام کے بعد بھی سرگرم رہا جبکہ پاکستان سوچتا رہا ، تذبذب کا شکار رہا ۔
کشمیری رہنما غلام بنی فائی نے سوتھ افریقہ کا بھی ایک واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا کورونا کے سال میں کشمیر کے حوالے سے او آئی سی وزارت خارجہ کا اجلاس افریقی ملک نائجر میں ہونا تھا ۔ جو کورونا کے باعث ایک سال کے لیے معطل کرنا پڑا ۔ لیکن جب اجلاس کی تاریخ دی گئی تھی تب ہی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے افریقہ ملک کی حکومت سے رابطہ کیا اور بھارت کو بھی اجلاس میں بلانے پر زور دیا۔
بعد میں جب کورونا کا خوف کو اگلے سال کانفرنس ہوئی تو اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ حیران ہوئے کہ یہ کانفرنس گاندھی میموریل ہال میں ہورہی ہے ۔۔ یعنی اس عمارت کو تعمیر کرنے کیلئے بھارت نے خود فنڈنگ کی ۔
ڈاکٹر فائی نے اسٹیج پر براجمان پاکستانی سیاستدان مشاہد حسین اور دیگر کی طرف مڑ کو کہا ، لرن فرام انڈیا ۔
لرن فرام انڈیا کا مطلب یہ کہ کس طرح بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کیلئے ہمہ وقت اور ہر جگہ متحرک ہے اور کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ اس کے برعکس پاکستان کشمیر بنے گا پاکستان کے دعوے تو کرتا ہے لیکن عملی طور پر خارجہ و سفارتی محاذ پر ڈھیلا ڈھالا طرز عمل اخیتار کیا ہوا ہے جس کا فائدہ بھارت اٹھاتا ہے ۔
اس تقریب میں سینیٹر مشاہد حسین نے بھی خطاب کیا ۔ انہون نے کشمیر کا وکیل کمزور ہونے کا برملا اعتراف کیا ۔ اسٹیج انچارج چونکہ مسلم کانفرنس کے رہنما پیشہ سے وکیل ہی ہے ۔ مشاہد حسین نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیریوں کا وکیل کمزور ہے جس پر ہال قہقوں سے گونج اٹھا ۔
مسلم کانفرنس ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر کو بھی محفل میں اپنی بات رکھنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے کشمرسے متعلق پاکستان کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کے باعث پاکستان بیک فٹ پر آگیا ہے ۔ پاکستان حکومت بدلنے کے ساتھ ہی کشمیر پالیسی بھی بدل جاتی ہے جس سے تحریک آزادی کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ چند سال پہلے پاکستان فرنٹ فٹ پر تھا اور بھارت بیک فٹ پر ۔ مگر5 اگست 2019 کے بعد سب الٹ ہوگیا ۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینر محمود احمد ساغرنے دیگر مقررین کے برعکس مقبوضہ کشمیر کی گراونڈ ریلٹی بتائی ۔ انہوں نے بھی پالیسی پر سوالات اٹھائے کہا کشمیری عوام پاکستان کے طرز عمل سے ناخوش ہیں ۔ 5 اگست 2019 کے بعد صورتحال یکسر مختلف ہے ، کشمیری مایوس نہیں البتہ پاکستان کی پالیسی پر انہیں خاصی تشویش ہے ۔
تقریب میں محفل کے میزبان صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد ، سابق امیر جماعت عبدالرشید ترابی ، سینئر حریت رہنما غلام محمد صفی سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا اور مسئلہ کشمیر پر ایکٹیو پالیسی اپنانے پر زور دیا ۔
تقریب میں جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر ، کشمیری رہنما نذیر احمد قریشی ، حریت رہنماوں اور صحافی تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی ۔
وکيل کمزور ھو تو پھر مدھی خود ھی اپنا مقدمہ لڑنے لگتا ھے۔ موجودہ آزاد کشمير کے حالات اسی طرف اشارہ کر رھے ھيں۔ ھميں کشمير بنے گا پاکستان کے سحر سے نکل کر اب کشميريوں کی منشاہ کے مطابق سوچنا ھو گا۔ ميرے خيال ميں موجودہ پاکستانی حالات آزاد کشمير کو بھی انڈيا تو بنا سکتے ھيں۔ کشمير کو پاکستان نيئ بنا سکيں گے۔ انسانی حقوق پامال اپنے ملک ميں ھوں آئين شکنی اپنے ملک ميں ھو اور بھاشن انڈيا کو ديں زرہ سوچنا ھو گا۔ یہ ھو کيا رھا ھے؟ ايسے وکيل سے ھو شيار رھنا ھو گا کہ يہ آپ کا مقدمہ خارج ھی نہ کرا دے۔