

تحریر: محمد اقبال میر
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں واقع مرکزی زکوٰۃ کونسل جو بظاہر ریاست کے غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور دین کے طالبعلموں کے لیے ایک سہارا سمجھی جاتی ہے، اس وقت شدید بدانتظامی اور قیادت کے فقدان کا شکار ہے۔ چئیرمین زکوٰۃ کونسل کی مدت تعیناتی ختم ہو چکی ہے، جس کے باعث نہ صرف کونسل کا سالانہ بجٹ پیش نہ ہو سکا، بلکہ اس کا براہِ راست اثر ان مستحقین پر پڑا ہے جو ہر چھ ماہ بعد زکوٰۃ کی اقساط کے منتظر ہوتے ہیں۔
یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب معلوم ہوا کہ سیکرٹری زکوٰۃ و عشر بیرونِ ملک ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں دفاتر میں انتظامی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ مستحقین صبح سے شام تک دفاتر کے چکر لگاتے ہیں، کبھی ایک کلرک کے پاس، تو کبھی دوسرے کے دروازے پر۔ لیکن جواب ندارد۔ صورتحال یہ ہے کہ دفاتر میں عملہ دوپہر 12 بجے کے بعد وقفہ لے کر تین بجے نمودار ہوتا ہے، بائیومیٹرک حاضری لگاتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے محکمہ زکوٰۃ کا نہ کوئی نگہبان ہے نہ نگران۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر نے حالیہ دنوں میں مدارس کے طلباء کی اعانت 100 روپے یومیہ تک بڑھانے کا اعلان کیا تھا، لیکن حسبِ روایت وہ اعلان محض کاغذی کارروائی ہی رہا۔ عملی طور پر آج بھی ایک دینی طالبعلم کو محض 33 روپے یومیہ دیے جا رہے ہیں۔ مہنگائی کی اس دوڑ میں جہاں ایک چائے کا کپ بھی 60 روپے کا ہو چکا ہے، وہاں ایک طالبعلم کی یومیہ اعانت 33 روپے؟ یہ زیادتی نہیں، بلکہ ریاست کی طرف سے شعوری نظراندازی ہے۔
مدارس، جو نہ صرف دینی علوم کا مرکز ہیں بلکہ ہزاروں غریب طلباء کی کفالت بھی کرتے ہیں، آج معاشی بحران کا شکار ہیں۔ مدارس کے منتظمین بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں اشیائے خوردونوش کی شدید قلت ہے۔ غذائیت کا معیار دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔ بہت سے مدارس بند ہو چکے ہیں، اور جو باقی بچے ہیں، انہوں نے اپنے طالبعلموں کی تعداد نصف سے بھی کم کر دی ہے۔
استحصالِ کشمیر۔۔۔قومی یکجہتی کی ضرورت
یہ المیہ صرف تعلیمی زوال کا نہیں، بلکہ معاشرتی انحطاط کا بھی ہے۔ غریب والدین جو اپنے بچوں کو دینی تربیت دلوانا چاہتے ہیں، وہ انہیں ریاست سے باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا بچہ شدت پسندی، فرقہ واریت یا دہشت گردی کے نرغے میں نہ آ جائے۔ یہ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اپنی ریاست میں محفوظ، مہذب اور دینی ماحول میں تعلیم حاصل کریں۔ مگر ریاستی بے حسی نے انہیں مایوسی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
عوامی حلقے، سماجی کارکنان اور مخیر حضرات برملا کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت مدارس کی مناسب معاونت نہیں کر سکتی تو پھر انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ براہِ راست اپنی زکوٰۃ انہی اداروں کو دیں۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو پھر ریاستی خزانے میں زکوٰۃ کے ذریعے آنے والی خطیر رقم میں نمایاں کمی ہو جائے گی، اور محکمہ زکوٰۃ کا وجود صرف ایک دفتر تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔
یہ صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں، بلکہ ایک نظریاتی زوال ہے۔ دینی مدارس کسی مخصوص مسلک یا گروہ کی ملکیت نہیں، یہ ریاستی ذمہ داری کا ایک اہم ستون ہیں۔ یہاں صرف قرآن و حدیث نہیں، اخلاق، کردار، سچائی، قربانی اور اتحاد کا درس دیا جاتا ہے۔ ان اداروں کی تباہی کا مطلب صرف تعلیم کا زوال نہیں بلکہ معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کا لرز جانا ہے۔
وزیر اعظم، چیف سیکرٹری، اور افواجِ پاکستان کے سربراہ کو چاہیے کہ اس سنگین مسئلے کا فوری نوٹس لیں۔ مدارس کے طلباء ریاست کے بچے ہیں، ان کی کفالت صرف والدین کی نہیں بلکہ حکومتِ آزاد کشمیر کی ذمہ داری ہے۔ اگر یہ مدارس بند ہو گئے تو نہ صرف ایک تعلیمی نظام تباہ ہو گا، بلکہ وہ اخلاقی، روحانی، اور نظریاتی قلعہ بھی ڈھیر ہو جائے گا جس پر یہ ریاست فخر کرتی آئی ہے۔
اگر حکومت اب بھی آنکھیں بند رکھتی ہے تو پھر مخیر حضرات کو آگے آنا ہو گا۔ مگر یہ سوال ہمیشہ باقی رہے گا کہ جب ریاست کے اپنے بچے بھوک، افلاس اور نظراندازی کے ہاتھوں تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوں، تو ایسی ریاست کے آئین، قانون اور عدل کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟