
تحریر: محمد اقبال میر

آزاد جموں و کشمیر کا نقشہ سامنے رکھیے تو یہ خطہ پہاڑوں اور وادیوں کی زنجیر میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ برف پوش چوٹیوں سے لے کر تنگ اور تاریک راستوں تک، یہاں کے باسیوں کی زندگی مشکلات کی سنگلاخ چٹانوں پر لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مگر ان بلندیوں پر سانس لینے والے لوگ اپنی آنکھوں میں ہمیشہ ایک ہی خواب سجائے رہتے ہیں: تعلیم، روزگار اور بہتر مستقبل کا خواب۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا ان خوابوں کی تعبیر سب کے لیے یکساں ہے؟
دیہی اور پہاڑی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کا سلسلہ صدیوں پرانی داستان ہے۔ گاؤں کے لوگ علم و صحت اور روزگار کی تلاش میں وادیوں سے نکل کر شہروں کا رخ کرتے رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پہاڑ رفتہ رفتہ خالی ہو رہے ہوں اور دریا کے کنارے نئے شہر جنم لے رہے ہوں۔ خوشحال گھرانے اپنی اولاد سمیت شہروں میں سکونت اختیار کر چکے ہیں اور غریب دیہاتی مزدور اپنی فیملی کو گاؤں میں چھوڑ کر روزی روٹی کے لیے شہروں کی خاک چھاننے پر مجبور ہے۔
تعلیم کے میدان میں بھی تفاوت نمایاں ہے۔ سرمایہ دار اپنے بچوں کو مہنگے اسکولوں اور بڑے اداروں میں بھیجتے ہیں۔ مزدور اپنی دہاڑی چاہے گنوا دے لیکن بچے کو کتاب ضرور دلاتا ہے۔ پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ نیلم، ہٹیاں بالا یا لیپہ کے کسی کچے سکول کا طالب علم ان سہولتوں سے محروم رہتا ہے جو مظفرآباد یا میرپور کے اداروں میں پلنے والے بچوں کے قدموں میں بچھا دی جاتی ہیں۔ یہی فرق آگے چل کر ملازمتوں کے میدان میں ایک دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔
صحت کا منظر نامہ بھی مختلف نہیں۔ جہلم ویلی اور نیلم جیسے بڑے اضلاع میں اگرچہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال موجود ہیں، مگر مریضوں کو علاج کے لیے بہرحال مظفرآباد کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ جب تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتیں ہی غیر مساوی ہوں تو پھر یہ توقع کیونکر رکھی جا سکتی ہے کہ پہاڑوں سے اُترنے والا نوجوان سہولتوں کے گہوارے میں پلنے والے شہری نوجوان کے برابر کھڑا ہو سکے؟
ایسے میں کوٹہ سسٹم محض ایک پالیسی نہیں بلکہ سماجی انصاف کا ستون ہے۔ یہ اُن طلبہ کے لیے سہارا ہے جو خواب تو دیکھتے ہیں مگر وسائل کی کمی بار بار ان کے قدم روک دیتی ہے۔ یہ اُن معصوم بچوں کے لیے امید ہے جو کسی کچے کمرے میں مٹی کے فرش پر بیٹھ کر "الف” اور "ب” لکھتے ہیں اور پھر شام ڈھلے بھیڑ بکریاں چرا کر گھر لوٹ آتے ہیں۔
کوٹہ سسٹم ختم، حریت کانفرنس کا مہاجرین کو ویٹ اینڈ سی کا مشورہ
یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادکشمیر میں سفارشی کلچر اور ایڈہاک بھرتیوں کی تلخ روایت نے نظام کو بارہا داغدار کیا۔ لیکن این ٹی ایس اور پبلک سروس کمیشن کے قیام نے کم از کم میرٹ کا تصور ضرور پیدا کیا۔ تاہم میرٹ اسی وقت معتبر ہو سکتا ہے جب سب کو برابر کے مواقع میسر ہوںورنہ اوپن میرٹ کی دوڑ میں وسائل والے ہمیشہ آگے نکلیں گے اور پہاڑوں کے بچے محرومی کی لکیر کے اُس پار ہی رہ جائیں گے۔
یہاں ایک اور پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آزادکشمیر میں مقیم مہاجرینِ جموں و کشمیر کو گزٹیڈ آسامیوں میں 6 فیصد کوٹہ ملا، جس نے انہیں نمائندگی بھی دی اور ترقی کے سفر میں شریک ہونے کا موقع بھی۔ اگر یہ سہولت ختم کر دی گئی تو اُن کی آواز کہاں سنی جائے گی؟ ان کی ترجمانی کون کرے گا؟ ان کو مزید احساسِ محرومی سے بچانا حکومت اور ریاست کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ان لوگوں کے مسائل پہلے ہی زیادہ ہیں متعلقہ ایم ایل ایز کی ترجیحات میں حلقے کے باقی لوگوں کے آخر میں ان کا نمبر آتا ہے۔
آزادکشمیر کے پہاڑوں میں ایسے ہزاروں نوجوان بستے ہیں جن کے پاس سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم تو دور کی بات، بنیادی تعلیم بھی مکمل نہیں ہو پاتی۔ پہلے ہی محرومیوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر ہے، اب اگر روزگار کی امید بھی چھین لی گئی تو یہ معاشرہ ناانصافی کی مزید دلدل میں دھنس جائے گا۔ اس لیے ایسی قانون سازی وقت کی ضرورت ہے جس سے مساوات قائم ہو، غریب کا بچہ بھی پڑھ سکے اور اسے صحت کی بنیادی سہولیات دہلیز پر میسر ہوں۔
لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں کوٹہ سسٹم کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ مزید شفاف اور مؤثر بنایا جائے۔ یہ نظام محض سرکاری اعداد و شمار کی خانہ پُری نہ ہو بلکہ ان خوابوں کی ضمانت ہو جو پہاڑوں کی گود میں پلتے ہیں۔ بصورت دیگر، شہر مزید آباد ہوں گے، پہاڑ مزید ویران، اور احساسِ محرومی کی لکیر مزید گہری ہو جائے گی۔
یاد رکھیے! کوٹہ سسٹم کوئی کاغذی فارمولا نہیں، یہ ان بچوں کا چراغ ہے جن کی کتابیں اکثر ادھوری رہ جاتی ہیں۔ اگر ہم نے یہ چراغ بجھا دیا تو کل یہ پہاڑ اور وادیاں صرف پتھروں کی خاموش کہانیاں سنائیں گی، اور انسانوں کے خواب صدیوں کے اندھیروں میں دفن ہو جائیں گے۔