
فلاح عام ٹرسٹ
تحریر ۔۔ محمد شہباز
نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیری نوجوانوں اور بچوں کو تعلیمی طور پر پسماندہ رکھنے کے اپنے مذموم اور شیطانی منصوبے کے تحت جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کے زیر اہتمام فلاح عام ٹرسٹ کی تعلیمی سرگرمیوں کو سرکاری تحویل میں لینے کے احکامات صادر کیے ہیں ۔اس بار سہولت کاری نیشنل کانفرنس حکومت نے کی ہے،جیسے کہ وہ برسوں سے یہ کار بد کرتی آرہی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیرکی وزیر تعلیم سکینہ ایتونے فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنےوالے215سے زائد سکولوں کو سرکاری تحویل میں لینے کے احکامات صادر کروائے ہیں۔سرکاری تحویل میں لینے والے یہ تعلیمی ادارے مقبوضہ وادی کشمیر کے دس اضلاع میں قائم ہیں ۔جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے یکم سے لیکر میٹرک سطح تک ان سکولوں میں طلبا کو اسلامی تعلیم کیساتھ ساتھ جدید عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ان سکولوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواندگی کی شرح فیصد کو بڑھانے اور شہر و دیہات میں معیاری اور سستی تعلیم کو عروج بخشنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
مقبوضہ علاقے میں قابض بھارتی انتطامیہ کے محکمہ سکول ایجوکیشن کے سیکرٹری رام نواس پاسوان نے جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر پر عائد پابندی کے حوالے سے بھارتی وزارت داخلہ کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے وادی کشمیر کے تمام ڈپٹی کمشنروں اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر ان سکولوں کا نظم و نسق سنبھال لیں اور انکی نئی انتظامیہ تشکیل دیں۔فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں کو تحویل میں لینے کیلئے ایک سرکیولر جاری کیا گیا ہے، جس میں مقبوضہ وادی کشمیر کے تمام اضلاع میں قائم ان سکولوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔جن سکولوں پر پابندی عائد کرکے تحویل میں لینے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ ان میں ضلع بارہمولہ میں 53، اسلام آباد میں 37، کپواڑہ میں 36، پلوامہ میں 22،وسطی ضلع بڈگام میں 20، کولگام میں 16، شوپیاں میں 15، بانڈی پورہ میں 6، گاندربل میں 6 اور سرینگر میں 4 اسکول شامل ہیں۔
سنہ2019 میں جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کو غیر قانونی قرار دیکرپابندی کے بعد ان تعلیمی اداروں کو بار بار جانچ پڑتال کے سخت ترین مراحل سے گزارا گیا،حتی کہ سکول انتظامیہ کو نئے طلبا کو داخلہ دینے سے بھی روک دیا گیا، جس کے نتیجے میں انرولمنٹ میں خاطر خواہ کمی آئی اور ان کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا۔والدین، اساتذہ اور ان اداروں میں پڑھنے والے طلبا نے سکولوں کو سرکاری تحویل میں لینے کے ناروا اور تعلیم دشمن اقدام پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔فلاح عام سکولوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب طلبا زیر تعلیم ہیں،جبکہ چوبیس ہزار اساتذہ اور دیگر عملہ ان کیساتھ وابستہ اپنا روز گارکماتے تھے۔لیکن مودی اور اس کے حواریوں نے ان تمام اداروں کو اپنے نشانے پر رکھا ،جو کشمیری عوام کی فلاح و بہبود میں بنیادی کردار ادا کرنے میں پیش پیش تھے،بالخصوص 05اگست2019 کے بعد اہل کشمیر کے خلاف شکنجہ کسا گیا،تاکہ انہیں تعلیم کے زیور سے محروم او ر زندگی کے تمام معاملات میں محتاج بنایا جائے۔ ناقدین بھی اس اقدام کو کشمیری مسلمانوں سے وابستہ اداروں کو دبانے کی بی جے پی حکومت کی مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں ۔ بھارتی وزارت داخلہ نے 2019میں جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر پر پانچ برس کیلئے پابندی عائد کی تھی ۔
گزشتہ برس اس پابندی میں مزید توسیع کی گئی ہے۔جبکہ جماعت کی پوری قیادت بشمول امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض جیلو ں میں قید ہیں۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی کی جائیداد و املاک، جن میں عمارات بھی شامل ہیں کو قبضے میں لیا جاچکا ہے۔قابض حکام نے الزام لگایا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر زیادہ تر فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام سکولوں ، مدارس ، یتیم خانوں ، مساجد کے منبرو محراب اور دیگر فلاحی اداروں کے وسیع تر نیٹ ورک سے اپنا مالی نظام چلاتی ہے اور اس طرح کے اداروں نے 2008، 2010اور 2016کی عوامی انتفادہ میں بنیادی کردار ادا کیاتھا۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے زیر اہتمام فلاح عام ٹرسٹ کو پابندیوں کی زد میں لاکر کشمیری نونہالوں کو زیور تعلیم سے محروم رکھنے کی سازش اور کوشش کی گئی ہو،1975 میں اس وقت کے طالع ازما شیخ عبداللہ نے فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں پرپہلی بار پابندیاں عائد کرکے اپنے لیے رسوائی اور ذلت کا سامان کیا۔یہ فلاح عام ٹرسٹ کے سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کوحصول تعلیم سے روکنا تو ہے ہی ،اصل میں یہ سوچوں کی لڑائی بھی ہے،جو ابتدائی افرنیش سے لیکر قیامت کی صبح تک جاری ہے اور جاری رہے گی۔کیونکہ حق اور باطل کے درمیان یہ لڑائی کبھی ختم نہیں ہوگی اور یہ اللہ تعالی کی سنت بھی ہے کہ حق پرست تمام تر مشکلات اور کمزوریوں کے باوجود باطل کیساتھ نبرد ازما ہونے میں کبھی نہیں کترائے ۔
1989 میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلح جدوجہد کے آغاز کیساتھ ہی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر زیر عتاب آگئی،1990 میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرکے اس کے زیر اہتمام سکولوں اور دوسرے اداروں کو بند کردیا گیا،مگر وقت کا پہیہ کب رکا کے مصداق حالات کے تمام تر جبر کے باوجود جماعت اسلامی پھر ایکبار دعوتی کام میں مصروف عمل رہی اور فلاح عام ٹرسٹ میں بچے اپنے سینوں کو تعلیم سے منور کرتے رہے’حالانکہ 1990 سے 94 اور 95 تک جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کو و ہ قرض بھی چکانا پڑا جو اس پر واجب ہی نہیں تھا۔
بدنام زمانہ کوکہ پرے اور اس کے دہشت گردوں نے جماعت اسلامی کیساتھ وابستہ سینکڑوں اراکین،ہمدردوں اور کارکنوں کا نہ صرف قتل عام کیا بلکہ ان کے گھروں کیساتھ ساتھ میوہ باغات تک کا صفایا کیا ۔مورخ اس ظالمانہ اور سفاکانہ دور کو کبھی نہیں بھولے گا۔جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اپنے گھروں سے بھی ہجرت کرنا پڑی۔یوں کہا جائے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی ایک دہکتا ہوا انگارا ہاتھ میں لینے کے مترادف تھا۔کوکہ پرے اور اس کے غنڈوں کو ایک ایک کرکے اپنے انجام کو پہنچایا گیا اور جماعت اسلامی پھر ایکبار پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنے دعوتی کام میں مصروف عمل رہی۔فلاح عام ٹرسٹ کے سکول اور دوسرے ادارے بھی پھل پھول رہے تھے کہ2019 آگیا۔مودی کی فسطائی ذہنیت پھر کام کرگئی،جماعت اسلامی اور اس کے تمام اداروں پر دوبارہ پابندیاں عائد کی گئیں۔جماعت اسلامی کے اداروں پر باضابطہ قبضہ کیا گیا ۔
بقول الطاف حسین حالی تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد
جماعت اسلامی نے پہلے سے زیادہ جذبوں کو بروئے کار لاکراپنے ادھورے مشن کو جاری و ساری رکھا،مگر 14جون 2022میں پھر ایکبار جماعت اسلامی کے بنیادی ڈھانچہ فلاح عام ٹرسٹ کو پابندیوں میں جکڑا گیا۔ اسلام کے بڑے داعی اور رجل عظیم جناب سعدالدین کے دور امارت میں جماعت کو سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔البتہ سعد الدین صاحب نے مشکل ترین اور صبر ازما حالات میں جماعت اسلامی کو تسبیح کے دانوں کی طرح متحد اور یکجا رکھا ۔ سعد صاحب نے ان مشکل ترین حالات کو ایک شعر میں یوں سمویا ۔ خدا کو خدا کون نہیں کہتا ہے لیکن ہم نے جب کہا ہے تو سزا پائی ہے ،جماعت اسلامی فرشتوں کی کوئی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی آج تک اس جماعت کے بانی عظیم مفکر سید ابو الاعلی مودودی نے یہ دعوی کیا ہے البتہ نہ جانے پوری دنیا میں جماعت اسلامی اور اس کیساتھ نظریاتی و ذ ہنی ہم آہنگی رکھنے والی جماعتیں ہی کیوں زیر عتاب آتی ہیں؟مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے مسلح جدوجہد کی داغ بیل پڑی تو فلا ح عام سکولوں میں زیر تعلیم اور فارغ التحصیل طلبا کے علاوہ اساتذہ اس جدوجہد کا ہر اول دستہ بنے۔
حزب المجاہدین کی داغ بیل ڈالی گئی تو قیادت کا قرعہ فال بھی جماعت اسلامی سے نکالا گیا۔شہادتوں کی برسات لگی ،ایک سے بڑھ کر ایک قربانی کا مجسمہ بنا۔حالات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی حزب المجاہدین پورے قد کاٹھ کیساتھ دشمن کے سامنے کھڑی پنجہ آزمائی کررہی ہے اور سعدالدین صاحب کے شاگرد سید صلاح الدین احمد اس قافلہ سخت جان کو برہمن سامراج سے لڑانے میں دن رات ایک ہوئے ہیں۔جناب سید کا لخت جگر سید شاہد یوسف بدنام زمانہ تہاڑ جیل کی کال کوٹھریوں میں بند ہیں،ان کے آشیانے کو کئی برس قبل بارودی دھماکے میں تباہ کیا گیا ،ان کی جائیداد ضبط کی گئی مگر جناب سید کے قدم نہ پہلے ڈھگمائے اور نہ ہی آج ان میں کوئی جنبش آرہی ہے۔2019 میں جماعت اسلامی پر عائد کی جانے والی پابندی میں بھارتی وزارت داخلہ کے بیان میں یہ الزامات بھی عائد کیے گئے کہ جماعت اسلامی دوسری تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرتی ہے جو لوگوں میں بھارت کے خلاف نفرت اور شدت پسندی کے جذبات کو بڑھکانے میں اہم کردار اد ا کرتی ہے۔اس سے قبل 1994 میں سابق بھارتی وزیر امور کشمیر راجیش پائلٹ نے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ جمو ں وکشمیر میں بقول اس کے شورش پر قابو پانے کیلئے جماعت اسلامی کا صفایا ناگزیر ہے،گوکہ جماعت اسلامی کا صفایا تو نہیں ہوسکا البتہ راجیش پائلٹ مذکورہ انٹریو کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہوا ۔
جماعت اسلامی کے بارے میں جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مصر کی عظیم تحریک اخوان المسلمین سے متاثر ہے،جس کے سربراہوں سید قطب اور حسن النبا کو فوجی آمر جمال ناصر نے اپنے لیے بڑا خطرہ قرار دیکر سید قطب کو تختہ دار پر چڑھایا تو جناب حسن النبا کو ایک حملے میں شہید کروایا۔2012 میں مصر میں طویل عرصے کے بعد ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا تو انتخابات میں اخوان المسلمین برسراقتدار آئی،محمد مرسی صدر منتخب ہوئے مگر ایک برس کے بعد ہی ایک اور فوجی آمر جنرل السیسی نے جناب مرسی کو اقتدار سے ان الزامات کے تحت معذول کیا کہ انہوں نے تحریک مزاحمت حماس کیساتھ روابط بڑھانے کے علاوہ برسوں سے بند غزہ سرحد کو آمد و رفت کیلئے کھول دیا۔پھر 17جون 2019 میں جیل کی کال کوٹھری سے ان کی میت نکلی،اخوان کے سینکڑوں مردو خواتین کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔تحریک مزاحمت حماس بھی صہیونی اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں چٹان کی مانند کھڑی ہے۔ بنگلہ دیش میں 90سالہ پروفسیر غلام اعظم سے لیکر عبدالقادر ملہ سمیت دسیوں رہنما اور کارکن تختہ دار کو چوم چکے ہیں۔آج بنگلہ دیش کا نقشہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے،حسینہ واجد بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔زیادہ پرانی بات نہیں ہے جناب محمد اشرف صحرائی بھی 2021 میں اپنے نصب العین پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر جیل کے اندر ہی اپنی جان قربان کرچکے ہیں،اس سے قبل اپنے لخت جگر جنید صحرائی کی قربانی بھی دے چکے ہیں۔
اپنے قلم سے پوری دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے سید ابولااعلی مودودی کے لٹریچر میں نہ جانے کون سی قوت کارفرما ہے کہ اس کو پڑھنے والا کیونکر تختہ دار کو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔خود جناب سید قادیانیت کو طشت ازبام کرنے کی پاداش میں سزائے موت اور ان کی جماعت پابندی کا مزا چکھ چکی ہے اورجس دن جناب سید نے پھانسی کے پھندے کو چھومنا تھا کہا جاتا ہے کہ اس دن وہ بڑے سکون اور آرام سے سورہے تھے ،جس پر جیل انتظامیہ ہکا بکا اور پریشان تھی اور جب انہیں جگایا گیا کہ آج اپ کی زندگی کا آخری دن ہے تو ان کا مشہور جملہ تھا،اگر موت لکھی ہو تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی اور موت نہ لکھی ہو تو یہ الٹے بھی لٹک جائیں یہ بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔پھر ایسا ہی ہوااور جناب سید کی سزائے موت کو منسوخ کیا گیا۔بھارت ہو یاکوئی ظالم اور جابر قوت،پابندیوں سے حق و صداقت کی آواز کو نہ پہلے ختم کیا جاسکا اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔کیونکہ حق والے قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ہمیشہ باطل پر غالب آگئے۔چاہیے وہ بدر کا میدان ہو جہاں 313 ایک ہزار سے زائد پر غالب آگئے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بھارت اپنا سر بار بار پتھر سے ٹکرا کر زخمی کررہا ہے ،مگر اسے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے۔امید ہے کہ فلاح عام ٹرسٹ پھر سے سرخرو ہوگا اور یہاں کشمیری نونہال اپنی علمی پیاس بھجاتے رہیں گے۔