تحریر: خواجہ کبیر احمد
پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر میں آج بھی انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی صورتحال شرمناک حد تک ناقص ہے۔ اکیسویں صدی کی اس ڈیجیٹل دنیا میں جہاں ہر لمحہ رابطے کا دور ہے، وہاں کشمیری عوام اب بھی نیٹ ورک سگنلز ڈھونڈنے کے لیے پہاڑیوں پر چڑھنے یا کھلے میدانوں میں جانے پر مجبور ہیں۔
یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں ہر ماہ کروڑوں روپے کماتی ہیں، لیکن اس کے بدلے میں عوام کو ملتا ہے صرف کمزور سگنل، سست انٹرنیٹ، اور بار بار منقطع ہونے والی سروس۔اس خطے میں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن کے افراد روزگار کے لیے خلیجی اور مغربی ممالک میں محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اہل خانہ سے رابطے کے لیے انہی انٹرنیٹ سروسز پر انحصار کرتے ہیں، مگر افسوس کہ یہاں ویڈیو کال تو دور کی بات، ایک عام فون کال بھی اکثر مکمل نہیں ہو پاتی۔

یہ سوال ہر شہری کے ذہن میں ہے کہ جب یہی کمپنیاں پاکستان میں لاہور، کراچی اسلام آباد اور دیگر شہروں سے کروڑوں روپے کما کر جدید 4G اور 5G ٹاور لگا سکتی ہیں، تو کشمیر کے عوام اس سہولت سے کیوں محروم ہیں؟کیا اس خطے کے شہری انسان نہیں؟ کیا وہ ٹیکس نہیں دیتے؟پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) اور متعلقہ کمپنیاں اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہیں۔
ان اداروں کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں یکساں معیار کی سروس یقینی بنائیں، مگر بدقسمتی سے اس خطے میں یہ معیار سب سے کم نہیں بلکہ کوئی معیار ہے ہی نہیں۔یہ مسئلہ صرف رابطے کا نہیں، بلکہ تعلیم، کاروبار اور روزگار کا بھی ہے۔ آج کے دور میں طلبہ آن لائن کلاسز، فری لانسنگ، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ناقص انٹرنیٹ ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
خطے کی حکومت، حکومت پاکستان ،PTA، اور تمام ٹیلی کام کمپنیاں کی ذمہ داری ہیکہ خطےکے عوام کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کا ازالہ کریں۔ یہاں کے عوام کو کمیونیکیشن کی معیاری سروسز فراہم کی جائیں۔اگر خطے میں ترقی کرنی ہے تو رابطوں کی دیواریں گرانی ہوں گی اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہر شہری کو قابلِ اعتماد، تیز رفتار، اور مستقل انٹرنیٹ و موبائل سروس فراہم کی جائے۔ورنہ تاریخ میں یہی لکھا جاۓ گا کہ ڈیجیٹل دور میں بھی پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر دنیا سے کٹ کر انٹرنیٹ کے اندھیرے میں رہا۔