تحریر: محمد اقبال میر
آزاد جموں و کشمیر میں اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت برسرِ اقتدار ہے۔ اگرچہ اس حکومت کی باقی آئینی مدت چند ماہ پر مشتمل ہے، مگر انہی محدود مہینوں میں وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھور ایک بھرپور سیاسی و انتظامی سرگرمیوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ اس سے قبل انوارالحق دورِ حکومت میں بھی پیپلزپارٹی اقتدار کا حصہ رہی، تاہم اختیارات کی محدودیت کے باعث حکومت اور عوام کے درمیان ایک نمایاں فاصلہ محسوس کیا جاتا تھا۔
وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھور نے اقتدار سنبھالتے ہی میدانِ عمل میں خود کو منوایا۔ مختلف اضلاع کے تسلسل سے دورے، عوامی مسائل کا براہِ راست جائزہ اور فوری فیصلوں کا سلسلہ ان کے عملی مزاج کا پتا دیتا ہے۔ آزادکشمیر کابینہ نے صحت کارڈ کی بحالی جیسے اہم منصوبے کی منظوری دے کر عوامی فلاح کا ایک بار پھر راستہ کھولا ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی اور مظفرآباد و راولاکوٹ میں تعلیمی بورڈ کے قیام کی منظوری بھی اسی جارحانہ حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں متعدد امور زیرِ غور آئے اور عندیہ ملا کہ آئندہ اجلاس تک مزید پالیسی اقدامات سامنے آسکتے ہیں—جن کے ثمرات بظاہر گراس روٹ سطح تک پہنچنے کی امید دکھائی دیتی ہے.
موجودہ سیاسی منظرنامے میں سب سے زیادہ زیرِ بحث سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کے منحرف ارکان کو ساتھ ملا کر انوارالحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں کامیاب کروائی۔ یہ بحث آج بھی سیاسی حلقوں میں جاری ہے۔ اب یہ ارکان پیپلزپارٹی کا حصہ ہیں، مگر ان حلقوں میں جہاں جماعت کے اپنے پرانے ٹکٹ ہولڈر موجود تھے، وہاں مستقبل کے سیاسی فیصلے ایک بڑا سوال بن چکے ہیں۔
حلقہ تین مظفرآباد کی مثال سب کے سامنے ہے، جہاں 2021 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے امیدوار مبارک حیدر نے بھرپور الیکشن مہم چلائی، مگر تحریک انصاف کی اس وقت کی غیر معمولی مقبولیت کے باعث کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔ سیاست کا اصول یہی ہے کہ ہر انتخاب اگلے الیکشن کی بنیاد رکھتا ہے، اور اب 2026 کے عام انتخابات کی تیاریاں وقت سے پہلے ہی شروع ہوچکی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہیں اور اپنے اپنے حلقوں میں صف بندیوں میں مصروف ہیں۔
پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکن، جو برسوں سے نظریہ بھٹو کے پرچم تلے وفاداری نبھاتے آئے ہیں، نئے چہروں کی شمولیت پر تحفظات رکھتے ہیں۔ یوم تاسیس ہو یا پارٹی کا کوئی اور اجتماع کارکنوں کی بے چینی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ اگرچہ انتخابات لڑنے والے امیدواروں نے فیصل ممتاز راٹھور کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، مگر کارکنوں کے ذہنوں میں کئی سوالات بدستور گردش میں ہیں۔
وزیراعظم فیصل ممتاز راٹھور اور ان کی ٹیم اس وقت پارٹی کے داخلی اختلافات کے باجود بظاہر پوری توجہ عوامی خدمت پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ کابینہ کے فیصلوں نے ایک مثبت فضا پیدا کی ہے اور دھیرکوٹ و باغ میں وزیراعظم کا فقیدالمثال استقبال اس بات کی علامت ہے کہ عوام تبدیلی کی ایک نئی لہر محسوس کر رہے ہیں۔
تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ وقت کم اور کام زیادہ ہے۔ ایسے میں یہ سوال لازمی جنم لیتا ہے کہ آیا جلسوں، ریلیوں اور عوامی رابطہ مہم کے ذریعے حاصل ہونے والی مقبولیت حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کے حل میں تبدیل ہو سکے گی یا نہیں اس کا فیصلہ وقت ہی کر سکے گا۔
آزادکشمیر میں اس وقت اپوزیشن بھی خاصی مضبوط ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور انوارالحق گروپ تینوں اپوزیشن بینچوں پر موجود ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر شاہ غلام قادر قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر سامنے آ چکے ہیں۔ سیاسی درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور ہر جماعت 2026 کے انتخابات سے قبل غیر اعلانیہ عوامی رابطہ مہم میں مصروفِ عمل ہے۔ مسلم کانفرنس بھی ایک بار پھر متحرک دکھائی دیتی ہے۔
یہ ساری سیاسی سرگرمیاں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ٹھوس مسائل کی نشاندہی کریں اور ان کے حل کیلئے عملی تجاویز پیش کریں۔ یہی طرزِ عمل خطے کے عوام کیلئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔
پیپلزپارٹی کے پاس اقتدار کے تقریباً سات ماہ باقی ہیں جبکہ مسلم لیگ ن بھی آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کے دعوے کے ساتھ بھرپور طریقے سے میدان میں ہے۔ آنے والے انتخابات میں کس جماعت کا پلڑا بھاری رہے گا—اس بارے میں حتمی رائے دینا فی الحال قبل از وقت ہے۔
آزادکشمیر میں مقیم مہاجرینِ جموں و کشمیر بھی موجودہ حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ مہاجر کیمپوں کے باقاعدہ دورے کریں، خصوصاً انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کسی کیمپ میں جاکر ان کے مسائل براہِ راست سنیں۔
مہاجرین کی ورکنگ کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو سنجیدہ غور کے ساتھ حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ رہائش، روزگار، تعلیم اور صحت کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں، جبکہ مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں اضافہ بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ حکومت کو ان معاملات میں اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ مہاجرین کی امیدیں آج بھی یہی ہیں کہ ریاست ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔