اسلام آباد
عالمی یومِ انسانی حقوق کے موقع پر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور کشمیری پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام "کشمیری لوگ حقوق کے حامل ہیں، محض تابع نہیں” کے عنوان سے ایک اہم سیمینار جموں و کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔سیمینار میں سیاسی رہنماؤں، سابق سفیروں، انسانی حقوق کے ماہرین، محققین، میڈیا کے نمائندگان اور طلبہ نے شرکت کی۔
سیمنار کے مہمان خصوصی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان انجنئیر امیر مقام تھے۔ سیمینار سے سابق صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان ، وزیر کشمیر کاز ارٹس اینڈ لنگویجیز نبیلہ ایوب خان، سابق وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی ، ترجمان دفتر خارجہ ایمبسڈر طاہر اندرابی ،ایمبسڈر ضمیر اکرم ، الطاف حسین وانی ،ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان اور ائمہ افراز نے خطاب کیا۔
وزیر امور کشمیر نے کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نے طاقت کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن کشمیریوں کا جذبہ ازادی نہیں دبا سکا۔ مقبوضہ کشمیر کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور کشمیری عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔ازاد کشمیر کے عوام کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کر ے گی۔ معرکہ حق میں فتح نے کشمیر کے مسئلہ کو ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بنا لیا ہے۔
مقررین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر،انسانی حقوق کے عالمی چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے عہدناموں میں درج حقِ خودارادیت کو کشمیری عوام کا بنیادی حق قرار دیا گیاہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور ابھی تک حل طلب ہے۔بھارت کی جانب سے ارمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے ذریعے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں منظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جس میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، گرفتاریوں کا غلط استعمال، گھروں کی مسماری اور املاک کی ضبطی شامل ہیں کی مذمت کی گئی۔ ہندوستانی حکومت مذہبی اور ثقافتی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوششوں، کتابوں پر پابندیوں اور "جعلی معمول کی صورتحال” کے سرکاری بیانیے کو مسترد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور بیرون ملک کشمیری طلبہ اور پیشہ وروں کو ہراساں کرنے کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ کشمیری عوام 5 اگست 2019 کے بھارتی یکطرفہ اقدامات اور آرٹیکل 370 و 35اے کی منسوخی کو مسترد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان کی نگرانی کو سراہا گیا۔
مقررین نے کہا کہ بھارت کو اقوامِ متحدہ کے نظام سے عدم تعاون اور مبصرین کو رسائی نہ دینے پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں تمام سیاسی قیدیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جائے انسانی حقوق کی ہر قسم کی منظم خلاف ورزیوں کو فوری روکا جائے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظالمانہ کالے قوانین کو ختم کیا جائے۔اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کو کشمیر پر اپنی طویل عرصے سے زیر التواء تیسری رپورٹ جاری کرنے کی اپیل کی گئی۔مقررین نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے تحقیقی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کہ بھارت کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنایا جائے۔ مقررین نےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے اور کشمیری عوام کو آزادانہ استصوابِ رائے کا حق فراہم کیا جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر تنازعہ حل نہ ہوا تو مئی 2025 کے بعد صورتحال سنگین عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے جو علاقائی و عالمی امن کے لیے خطرناک ہے ۔ اس خطہ میں امن و سلامتی تنازعہ کشمیر کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل میں مضمر ہے۔