الرحمٰن میں پوشیدہ راز۔۔

مقصود منتظر

0

الرحمٰن خالقِ کائنات کا پسندیدہ ترین نام ہے۔ رب تعالیٰ نے اپنے لیے خاص یہی نام چنا ہے اور قرآن میں انتہائی فخریہ انداز اور شان و مان کے ساتھ استعمال بھی کیا ہے۔۔

اللہ کے اس صفاتی نام کا معنی بظاہر سادہ اور آسان ہے مگر اس میں اتنی وسعت ہے کہ انسانی عقل و شعور اس کا احاطہ کرہی نہیں سکتی۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ الرحمن کا مطلب بہت زیادہ رحم کرنے والا ۔ اس صفت ’’الرحمن‘‘ کی وجہ سے دنیا میں بلا تخصیص مومن و کافر سب فیض یاب ہوتے ہیں۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ نے اپنی اس دائمی صفت یعنی الرحمٰن کا ذکر کیا ہے تو۔۔عام معنی۔۔ سے اس کی پوری طرح حق ادائی نہیں ہوتی ہے۔۔قرآنی آیات پڑھ کر الرحمن کے لفظی معنی سے تشنگی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان آیات کی کنٹینیوٹی قاری کو کائنات کی وسعتوں میں لےجاتی ہیں۔ اس کی ہستی سے متعلق سوچنے پرمجبور کر دیتی ہیں۔

مختلف تفاسیر میں درج الرحمن کے لفظی معنی یا عام فہم مفہوم ہے، رحم کرنے والا ۔ یعنی معاف کرنے والا، درگزر کرنے والا، محبت کرنے والا،شفقت کرنے والا۔ وغیرہ وغیرہ ۔
تو درج ذیل ان آیات کے ساتھ کیا یہ معنی یا مفہوم انصاف ہے؟ مجھ ناچیز کی عقل و سوچ کے مطابق ہرگز نہیں۔
یہ آیات ذرا غور سے پڑھیں۔ ان میں رب کائنات کی صفت الرحمن کے ساتھ آیات کے باقی الفاظ اور موضوع کیContinuityکو ذرا سمجھیں۔
آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ لفظ الرحمن میں کتنی وسعت پنہاں ہے۔
قرآن کی چند آیات کا ترجمہ پیش ہے۔
۔۔۔۔۔۔
وہ رحمٰن ہی ہے جو عرش پر مستوی ہے۔(طٰہٰ)
وہ رحمٰن ہی ہے جو بنی نوع انسان کا محافظ ہے۔ [الانبیاء]
وہ رحمٰن ہی ہے جو بخوبی پوری کائنات کا نظام چلارہا ہے۔[الملک]
وہ رحمٰن ہی ہے جو خوف زدہ لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔[مریم]
وہ رحمٰن ہی ہے جو بندوں کی مدد فرماتا ہے۔[الانبیاء]
وہ رحمٰن ہی ہے جس کی خشیت (ڈر) ایمان کا حصہ ہے۔ [ق]
وہ رحمٰن ہی ہے جس کی تخلیق میں کوئی عیب نہیں۔[الملک]
وہ رحمٰن ہی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا، اسے قرآن سکھایا اور بولنا سکھایا۔[الرحمٰن]
۔۔۔
قارئین۔۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔ کیا لفظی معنی سے اللہ کی اس صفت کی حق ادائی ہوتی ہے؟ میری طرح آپ بھی ضرور نفی میں جواب دیں گے۔
الرحمن کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ موضوع انتہائی غور طلب ہے کیونکہ جن آیات میں الرحمن کا ذکر آیا ہے وہ کائنات کی وسعتوں کو چھو رہی ہیں۔ اللہ کی بےعیب تخلیق کی تعریف کرتی ہیں۔اللہ کی شان ہستی اور عرش کو بیان کرتی ہیں۔ ان آیات میں بنی نوع انسان کے تحفظ اور خوف زدہ لوگوں کو امان دینے کا علان موجود ہے۔اپنے بندوں کو مدد کرنےکا وعدہ درج ہے۔ پھر سب سے اہم سورۃ الرحمان میں انسان کو پیدا کرنے اور اسے سکھانے اور بولنے کا معاملہ صاف صاف بیان ہے۔
یعنی ان آیات مقدسہ میں لفظی معنی الرحمن کےآگے چھوٹا بلکہ بہت ہی چھوٹا پڑجاتا ہے۔
الرحمن کی وسعت سمجھنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں البتہ تمثیل کی طور پر ایک پہلو جو میں سمجھا، وہ کچھ یوں ہے۔
۔۔۔۔
لفظ الرحمٰن اور رحم کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔وہ کچھ اس طرح ہے۔

ایک بچہ ماں کے رحم میں پیدا ہوتا ہے۔کچھ عرصہ یعنی نو اور کچھ دن پیٹ میں ہی پرورش پاتا ہے۔ مادر رحم میں پلنے کے دوران بچے کی خوراک کا انتظام کس طرح ہوتا ہے۔ یہ بچہ نہیں جانتا۔ کس دن اس کے اندر روح پھونک دی جاتی اور کب وہ آنکھ کھولتا ہے یہ بھی وہ نہیں جانتا۔ کون ہے وہ۔۔ مسلمان، ہندو عیسائی یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے میں سے کس کے گھر پیدا ہورہا ہے۔۔ بچہ کو نہیں معلوم ۔

البتہ اس کی ماں بن دیکھے بہت کچھ جانتی ہے۔ وہ بن دیکھے بچے سے پیار کرنے لگتی ہے۔ اندھی محبت خاص اسی لیے ہے۔ وہ اپنے سے زیادہ، رحم میں پرورش پانے والی اولاد کا خیال رکھتی ہے۔ بچہ کیسا بھی ہے؟ کالا ہے یا گورا، میل ہے یا فی میل،کمزور ہے یا تندرست، اچھا ہے یا برا، ماں کیلئے یہ اوصاف قطعاً کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ اسی طرح جنم لینے کے بعد بھی بچے پر اپنی جان وار دیتی ہے۔ نفع نقصان کی غرض کے بغیر اسے کھلاتی پلاتی ہے۔ کسی انجام کےسوچے بغیراسے پالتی پوستی ہے۔ اسے بولنا سکھاتی ہے۔ اسے لکھنا پڑھنا سکھاتی ہے۔اسے وہ وہ پیاراور شفقت دیتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اسے بڑھا ہوکر نیک سیرت اور سب سے بہترین انسان دیکھنا چاہتی ہے اور اس کیلیے اپنی استطاعت کے مطابق اسباب بھی پیدا کرتی ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو اس دنیا میں کامیاب اور اگلے جہاں میں بھی کامران دیکھنا چاہتی ہے۔

جب تک بچہ ماں کے رحم میں ہے،وہ باہر کی دنیا اور کائنات اور اس میں موجود ہر شے سےمکمل طور پر لاتعلق ہے۔ ماں کے جسم کے ایک تاریک اور چھوٹے سے حصے میں اس کی نشو و نما کیسے ہوتی ہے۔ بظاہر یہ ایک قدرتی عمل لیکن اس عمل کو چلا کون رہا ہے؟ .جواب ہے، وہی الرحمن۔۔
ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اس کائنات سے باہر موجود ایک عظیم الشان عرش پر براجمان، ہماری اس دنیا سمیت پوری کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اللہ نے رحم کے معاملے میں اپنی تشبیہ ماں سے ہی دی ہے۔ فرمایا میں اپنے بندوں سے ستر ماوں سے بڑھ کر پیار کرتا ہوں۔۔
اللہ کا اپنے بندوں سے پیار و محبت کا معاملہ سمجھنا آسان ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔مگر آیات کی روشنی میں الرحمٰن، انسان، عرش اور کائنات کا جوڑ وہ موضوع ہے جو ہم تھوڑا یوں سمجھ سکتے ہیں۔۔۔

یہ ایک مصدقہ امر ہے کہ حمل ٹھہرتے ہی ایک ماں یہ جان جاتی ہے کہ اس کے رحم میں بچے کی پیدائش کا آغاز ہوگیا ہے۔ وہ اس کی نشو نمااور ہلنے کو بھی محسوس کرتی ہے۔
حتیٰ کہ اس کی پیدائش تک کا وقت جانتی ہے۔مگر اندھیرے پیٹ میں پلنے والے شہزادے کو کوئی خبر نہیں۔ جائز بچوں کو آنکھ کھولتے اور پہلی آواز نکالتے ہی شایان شان پروٹوکول، کیئراور نسبت ملتی ہے۔ ننگا جسم جنم لیتے ہی رشتے میں ماں باپ سمیت کئی رشتے پالیتا ہے۔ کسی کا جانشین بن جاتا ہے۔ وراثت کا حق دار ٹھہرجاتا ہے۔ پھر آگے ذمہ داریاں وغیرہ وغیرہ۔

اب ذرا کینوس کو بڑا کریں بلکہ لامحدود، وہ بھی کائنات جتنا۔ خود کو ماں سے تشبیہ دینے والا الرحمن عرش عظیم پر براجمان ہے۔ اور لامحدود کائنات میں ذرے سے بھی چھوٹی زمین پر، ہر چلنے پھرنے اڑنے تیرنے اور رینگنے والی مخلوق کا نہ صرف اسے علم ہے بلکہ خیال و فکر بھی ہے۔ ماں کی پیٹ میں جو بچے کے خوارک آکسیجن گرمی سردی کا خیال رکھتا ہے وہی الرحمن ہے ہمیں اپنی رحمت کا بار بار احساس دلا رہا ہے۔

الرحمٰن کو کائنات کی وسعتوں سے جوڑ کریہی سمجھا رہا ہے کہ جس طرح ماں کے رحم میں پلنے والے بچے جسے یہ معلوم نہیں ہے کہ نو ماہ بعد وہ کتنی وسیع دنیا میں جارہا ہے اسیطرح روئے زمین پر زندہ انسان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کہ وہ کتنی وسیع کائنات کا حصہ ہے ۔ مگر لامحدود وسعتوں کے باوجود اللہ الرحمن اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔رحم میں موجود بچے جسے پتہ ہی نہیں کہ وہ جس کی کوکھ میں موجود ہے وہ ماں اسے کتنی محبت کرتی ہے۔ کتنا خیال رکھتی ہے۔
اسی لیے فخر و شان سے خود کو۔الرحمٰن۔ کہہ کررب کائنات انسان کو اپنی وہ صفت سمجھا رہا ہے، جس کا احاطہ کرتا ناممکن ہے۔
طالب دعا۔۔۔ مقصود منتظر

Leave A Reply

Your email address will not be published.