
گزشتہ دنوں پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں عوامی حقوق لانگ مارچ نے ساری دنیا کو حیران کردیا یہاں کی عوام کے شعور یکجتی اور اتحاد کی مثالیں دی جانے لگیں ہر ضلع کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا کہ گزشتہ تاریخ اور پہچان کو ایک نئی جہت بخشی ۔
سوشل میڈیا ہو یا عملی میدان نئی نسل کی مزاحمت نے امید کے نئے دیئے روشن کیے۔ وہ جو سمجھتے تھے کہ مذہبی رشتہ اور تحریک کے نام پر یہاں کی عوام کی حقوق پہ کوئی شب خون نہیں مار سکتا لیکن ایک سلگتا ہوا سوال بہرحال پیدا ہوگیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پوری دنیا کی نظریں آزادکشمیر پر لگیں تھیں اس وقت یہاں کی عوام نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا بلکہ ایک طرح کی چپ سادھ لی تھی جس سے فکر واحساس ہوا کہ کیا اہل کشمیر اپنی تقسیم پہ رضامند ہوچکے ہیں؟
دونوں ممالک نے پس پردہ سیز فائر لائن کو مستقل سرحد بنا دیا ہے اسی سٹیٹس میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی بات کرنے اور اسی صورت حال میں بہتر ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں ۔ایک طرف پاکستان سے حقوق کی مانگ اور ریاست کی دوسری طرف بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پہلا الیکشن اور وہاں ووٹر کا ٹرن آؤٹ حیران کن حد تک زیادہ دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اہل کشمیر کو اب اپنی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح عوامی حقوق کے لیے لاکھوں لوگ سربکف نکل آئے اور نظام زندگی معطل کردی اگر یہ سب عوام قابض کی اس جبری تقسیم پر متحد و متفق ہو کرنکل آتے تو یقینا قابض قوت سوچنے پر مجبور ہو جاتے لیکن عوامی حقوق کی بھمبر سے مظفرآباد مارچ تک خود اختیاری کے نعرے تو سنائی دییے لیکن بھارتی کشمیر کے قبضہ اور بھارتی مقبوضہ ریاست میں نام نہاد الیکشن پر نہ کوئی لیڈر شپ بولی نہ عوام جس سے یہ تاثر بنا کہ دونوں طرف کی عوام اپنے اپنے موجودہ سٹیٹس پہ رضامند اور بنیادی ضروریات زندگی تک محدود ہوگئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ جائنٹ ایکشن کمیٹی جو غیر سیاسی اور غیر نظریاتی ہے اسے یہاں کے بنیادی مسائل کی آواز بلند کرنے کے ساتھ بھارتی کشمیر میں بھارت کی بربریت پہ بھی بات کرنی چاہیے تھی جس طرح انٹرنیشنل میڈیا میں اس لانگ مارچ کو کوریج ملی اگر اس مارچ میں جبری تقسیم اور ناجائز قبضہ کے خلاف بھی عوام ہم آواز ہوتی تو کوئی مستقبل کی ریاست کے ساتھ کوئی کھلواڑ کرنے سے پہلے ضرور سوچنے پہ مجبور ہوں گے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو اپنی ریاست کی جبری تقسیم کے خلاف اور بنیادی حق ، رائے شماری کے لیے عوام کی ذہن سازی اور راہ عمل متعین کرنے کی ضرورت بھی ہے۔۔