
ایک عام انسان کو تو شاید یہ اندازہ نہ ہو لیکن جس کی نظر کمزور ہو اور اسےکم دکھائی دے رہا ہو وہ عینک کی اہمیت سے ضرور واقف ہو گا۔عام آدمی بھی عینک کے بارے میں جانتا تو ضرور ہو گا لیکن یہ گیجٹ کب سے استعمال ہو رہا ہے ؟
شاید ہی کسی کو پتا ہو۔
تصور کریں کہ جب بھی آپ کو کچھ پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے، آپ کو شیشے کا ایک ٹکڑا اپنے چہرے پر شیشے کے سائز کا اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ وہ بہترین حل تھا جو انسان نے 13ویں صدی سے پہلے بصارت کے مسائل کے لیے نکالا تھا
اٹلی میں کچھ کاروباری شخصیات نے ملکر شیشے کو اتنے سائز کا کر دیا کہ وہ سکڑ کر ناک کے سائز تک کا ہو جائے ۔کچھ عرصہ بعد ہسپانوی سائسندانوں کو فریم پر ربن جوڑنے کا خیال آیا تو 1700 کی دہائی میں، ان ربنوں کو ان "بازوؤں” سے بدل دیا گیا جو آج کے شیشوں میں ہے، جس سے وہ ناک اور کانوں پر آرام سے آرام کر سکتے ہیں۔