
اسلام آباد ۔۔۔۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے پارک فاطمہ جناع پارک یا ایف نائن پارک میں آپ چلتے پھرتے واک کرتے، کھیلتے کودتے انسان تو دیکھتے ہوں گے لیکن کیا یہاں ۔۔کن پکڑی۔۔ کیے اور مرغے بنے انسانوں کو دیکھا ہیں۔
آج کل اس پارک میں مرغے بنے درجنوں انسانوں کی دھوم ہے جن میں سے کچھ کے بدن کی چمڑی تک اتر چکی ہے اور کھڑا ہونے یا کمرسیدھا کرنے والوں کی حالت ایسی ہے کہ توبہ توبہ ۔
آخر یا ماجرہ ہے کیا اور کیوں انسانوں کو ایسی خوفناک اور افسوسناک حالت میں دکھایا گیا۔ یہ انہتائی دلچسپ امرہے۔
فائبر سے بنے انسانی مجسمے مرغے بنے ہوئے ہیں جن کو اچانک دیکھ کر دیکھنے والے حیران و پریشان ہوجاتے ہیں، بعض تو خوفزدہ بھی ہوجاتے ہیں ۔ مگر ان بے جان گونگے بہرے مجسموں سے ڈرنے کی نہیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ فائبر سلکچرز کسی جتے جاگتے انسان کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں۔
پارک میں واقع آرٹ گیلری میں کے قریب لگے رنگ برنگی ان مجسموں کے خالق معروف آرٹسٹ جمال شاہ ہے۔ان مجسموں کو بنانے کا مقصد پاکستانی عوام کی اصل حالت بتانا ہے۔
ان مجسموں میں بعض کھڑا ہونے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں اورکچھ ناگ رگڑ رہے ہیں ۔ اور سب کے سب کو کان پکڑا کے رکھا ہوا ہے۔
اس منفرد آرٹ کے ذریعے یہ دکھایا گیا ہے کہ بااثر اور حکمران طبقہ چاہتا ہے کہ عوام اسی حالت میں رہیں اور انہیں اٹھنے نہ دیا جائے۔
کان پکڑوانا اور ناگ رگڑوانا اگرچہ انسانیت کی تذلیل ہے لیکن اس منفرد آرٹ کے ذریعے عام پاکستانیوں کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ دیکھو آپ کی حالت کیسی ہے ۔
یاد رہے اس آرٹ کے خالق جمال شاہ نگران حکومت میں وزیر ثقافت بھی رہ چکے ہیں۔
گھاس کے سبز قالین پر ہیومن سلگچرز دیکھ کر ملک زادہ جاوید کے یہ اشعار زبان پرآتے ہیں۔
اندھے گونگے بہرے لوگ
اجلے کپڑے میلے لوگ
بھاگ رہے ہیں دنیا میں
پاؤں کو سر پہ رکھے لوگ
آئینوں کو لے کر ساتھ
پھرتے ہیں بے چہرے لوگ