
تحریر ۔۔۔ضمیر احمد ناز

اقوام کےحال، مستقبل کا فیصلہ نوجوانوں کا انفرادی کردار ادا کرتا ہے ، انفرادی کردار ہی سماج کے مجموعی کردار کی تشکیل کا ذمہ دار ہے۔ افراد محنتی ، جفاکش ، تعلیم یافتہ ، بااخلاق ، ایمانتدار، فرض شناس، محب الوطن ، جراتمند اور انصاف پسند ہوں تو سماج کے سر فخر سے بلند ہوتے ہیں۔
لیکن اگر یہی نوجوان منشیات کی لت میں پڑ کرنکمے، عیاش اور غافل ہو جائیں تو سماج تاریک اور گمنام ہوجاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 96 لاکھ سے زائد لوگوں کو منشیات کی لت لگ چکی ہے۔
منشیات سے مراد وہ اشیاء ، ادوایات ہیں جو انسان کی ذہنی کیفیت اور رویوں کو جسمانی اپاہج سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔
چند برس قبل آزاد کشمیر بلخصوص اس کے دارالحکومت مظفرآباد میں منشیات کے استعمال سےلوگ نا آشنا تھے۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نوجوان ، تیزی کے ساتھ اس رجحان کی طرف راغب ہو رہے ہیں جو عصر حاضر میں ہماری نئی نسل کے لیے اک سنگین مسلہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
اگر اس خطہ کی منشیات کے بارے صورتحال کو دیکھا جائے تو یہاں کے حالات بھی اب پاک بھارت کے پنجاب سے مختلف نہیں رہے ہیں۔ بلکہ کئی دیگر حوالوں سے حد درجہ خوفناک ہیں ۔
اندرون خانہ دیکھا جائے تو اس خطہ میں عوام ، نوجوانوں کی منشیات کی جانب دلچسپی سے یہ خطہ ڈرگ اور جرائم سٹی یا کیپٹل کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ڈرگ مافیا بڑی سطح پر مربوط نیٹ ورک کے ساتھ سرگرم ہیں۔
اس زہر کی فروغ ، ترسیل کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ، پبلک مقامات ، ورکشاپ، اڈے و دیگر درجنوں مقامات و ذرائع کو مرکزی نقظہ بنایا ہوا ہے۔
جلد امیر بننے کی خواہش ہی اس منافع بخش تجارت پر نوجوانوں اور عوام کو حصہ دار بنا رہی ہے۔ نوجوان ، موجودہ حالات کی مہنگائی ، بےروزگاری ، مایوسی، پریشانی ،حالات سے دل برداشتہ ہوکر ، ناکامیوں ، ناامیدی ، سماجی ناہمواری و محرومی کے جواز میں نشے کو مسائل و سکون کا آخری حل تصور کر رہے ہیں۔ ڈرگ مافیا نے تقریبا تمام مکتبہ فکر کو اپنے ساتھ ایک حد تک جوڑ کر اپنے اپنے طور پر منظم چھوٹے بڑے گروپس بنائے ہوئے ہیں ۔
گزشتہ کئی سال سے آزادکشمیر میں آئس و دیگر مہلک منشیات کی پکڑ نے مافیا کے سرگرم کردار کو عیاں کرتے ہوئے سماج کی تشویش کو بڑھا دیا ہے۔ بلکہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مظفرآباد سے گزشتہ سالوں میں ہیروئن کی بڑی مقدار پکڑی گی۔ کئی مرتبہ تو ہیروئن سیز فائر لائن کے قریب سے بھی پکڑی گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں ہیروئن کے پھیلاؤ یا ترسیل کا خطرناک ترین کام کس قدر عروج پر ہے ۔ اور کتنی بڑی گینگ اس میں ملوث ہیں۔۔
منشیات کون کون استعمال کرتا ہے؟کونسے کردار مافیا کا کتنا حصہ ہیں ؟کس قدر اور کیوں ؟ اس مذموم لعنت کو فروغ مل رہا ہے۔ کس کے بچے اس زہر کا نشانہ بن رہے ہیں؟؟؟ ایک جج، قاضی صاحب سے لے کر ایس ایچ او، آئی جی، ایم ایل اے، منسٹر ، یہاں تک کہ دس سال کے بچے جو بھی علم ہوتا ہے ہم سب اپنے اپنے علاقوں ، خطوں ،مراکز میں جانتے ہیں دیکھتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں لیکن اس سماج کی نام نہاد حثیت، منافقت، مفاد پرستی ، آنا پرستی ، بے ایمانی ، مصلحت پسندی اور چاپلوسی اس لعنت کے خلاف زبان کھولنے کی اجازت نہیں دیتی ہے ۔ لیکن حقیقت میں یہ عدل و انصاف بلخصوص پولیس کے نظام پر ایک بڑا عوامی عدم اعتماد ہے کہ عوام ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہے کیوں کہ سبھی اس کے حتمی نتائج کو بھی جانتے ہیں کہ منشیات فروش چند ماہ بعد سلاخوں سے باہر آ جائیں گے۔
اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو اس وقت تک کئی خاندان ، نوجوان، لڑکیاں ، طلباء ، کاروباری حضرات و دیگر اس تباہی و آگ کی سخت لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
یہ نشہ ایک آگ ہے۔ دھوکا ہے، فریب ہے ۔ جو میٹھا اور دلنشین لگتا ہے ،یہ زہر دوا نہیں ہے مرض ہے ، وباء ہے اور خاص کر ناسور طلب ہے ، یہ عادی افراد کے لیے نہ مٹنے والی پیاس ہے ۔ یہ متعدد جرائم اور خاص کر سماجی برائیوں کی ماں ہے۔
اس وقت آزادکشمیر منشیات کا گڑھ یعنی مرکزی نقظہ بنا ہوا ہے۔ منقسم ریاست کے دونوں اطراف جوانوں کی بڑی تعداد منشیات کی لت کا شکار ہو چکی ہے۔ چھوٹے بڑے درجنوں ڈرگ گینگ موجود ہیں ۔ اگر چند سالوں تک یہی صورتحال برقرار رہی تو چند سالوں میں منشیات کے استعمال میں 70 کا درجہ عبور کر جائے گا ۔
حالات اب اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ اکیلی پولیس کے بس کی بات نہیں رہی۔ عوامی تعاون سے ہی اب نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ پولیس کو اس کے لیے سول سوسایٹی کے تعاون سے مربوط پالیسی بنانا ہو گی۔ اور اپنی پوزیشن کو واضح کر کے عوامی اعتماد بحال کرنا ہو گا۔
قانون ساز اداروں کی کارکردگی پر یہ سوالات بھی اٹھ رہے کہ منشیات مخالف قانون نظام ہونے کے باوجود منشیات کے پھیلاؤ میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ اب عوام کو اگر اپنی نسلوں کو بچانا ہے تو بلا جھجک منشیات کے خلاف آواز بلند کریں ۔