
اس وقت رات کے گیارہ بج چکے ہیں دیہات کے حساب سے آدھی رات گزر چکی ہے۔ بیگم محترمہ ایک ہیڈمسٹرس کی طرح میری بیٹی کوسبق یاد کروا رہی ہیں۔ اے سے ایپل، اسے سےایلی گیٹر، اے سے آنٹ۔ اے سے ایکس۔
یعنی انگریزی زبان کے ہرحروف سے چار الفاظ۔ پھر ان کے مکمل سپیلنگ ۔ اور اردو معانی بھی۔ کل ملا کر 104 الفاظ بمع سپیلنگ۔۔جن کے اردو میں بھی معانی کے طور پر اتنے ہی الفاظ یاد کرنے ہیں۔ مجموعی طور پر پریپ کے بچے نے 208 الفاط بمع حروف تہجی سیکھنے ہیں۔ وہ بھی دو الگ زبانوں میں۔
یہ سب صرف یاد ہی نہیں کرنے ہیں بلکہ لکھنے بھی ہیں۔
اردو اور ریاضی کا نصاب بھی اتنا ہی طویل بھی ہے اور مشکل بھی۔ انگریزی نصاب میں معانی کے طور پر 104 الفاظ سیکھنے کے علاوہ اردو میں علحيده سے بہت طویل نصاب ہے۔
فاطمہ کی عمر ابھی پانچ سال ہے اور وہ پریپ کی طالبہ ہے۔ کسی مجبور قیدی کی طرح وہ رحم طلب نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی ہے لیکن میں امور سلطنت میں مداخلت کا انجام جانتا ہوں اس لیے مداخلت کی جرأت نہیں کر سکتا۔
میں اپنا دور طالب علمی یاد کر رہا ہوں۔ چھٹی جماعت میں پہلی بار چھوٹی انگریزی لکھنا سیکھی تھی۔ قاعده جماعت میں تو صرف اردو کے حروف تہجی شامل تھے اور ایک مختصر کتاب تھی جس کا عنوان تھا ”پھول اور کلیاں“۔ لیکن آج کا بچہ اردو، انگریزی اور ریاضی کا طویل نصاب سیکھے گا تو پہلی جماعت میں داخلہ لے سکے گا۔
جاپان اور فن لینڈ سمیت دنیاء کے بہترین تعلیمی ممالک میں سات سال تک کوئی نصاب ہی نہیں اور ہمارے ہاں پانچ سال کی عمر میں چار زبانیں سکھائی جا رہی ہیں۔
گھر میں فاطمہ دادی دادا کے ساتھ پہاڑی بولتی ہے۔ سکول میں اردو اور انگریزی سکھائی جاتی ہے جبکہ شام کے وقت وہ مدرسے میں قاریہ صاحبہ سے عربی ناظرہ پڑھتی ہے۔
اور یہ سارا ظلم وہ پانچ سال کی عمر میں برداشت کر رہی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ سارے بچوں کی طرف سے ریاست کی ساری استانیوں اور ماؤں کے خلاف رٹ دائر کر دوں۔ لیکن اس میں قصور تو سب پالیسی بنانے والوں کا ہے۔
یہ معصوم بچوں پر ظلم ہے۔ یقیناً بد ترین ظلم۔ کاش جسٹس صداقت حسین راجا صاحب اس پر سو موٹو لے سکتے۔ لیکن یہ بھی صرف خواہش ہی ہے کیوں کہ ان کے پاس بھی یہ اختیار نہیں۔
معصوم بچوں کا بچپن چھیننے والوں کو اللہ ہی ہدایت بخشے۔