
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے نیب قانون میں ججز کو حاصل استثنیٰ پر سوال اٹھا دیا ۔۔ریمارکس دیئے کہ کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے،ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں،
کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہئے، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سروس آف پاکستان کی تعریف میں ججز نہیں آتے،ججز آئینی عہدے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنا نہیں ملنا چاہئے،کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کر سکتی ہے،
دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے وزیراعظم کی طرف سے ججز کو کالی بھیڑیں کہا جانے والا معاملہ بھی اُٹھا دیا ، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا فیصلہ پسند آئے تو ججز ٹھیک ہیں۔فیصلہ پسند نہ آئے تو ہم کالی بھیڑیں بن جاتی ہیں ۔میں کسی اور کے متعلق بات نہیں کر رہا میں ٹی وی اور سوشل میڈیا بھی دیکھتا ہوں۔اس پر اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ وزیراعظم نے موجودہ ججز کے بارے میں بات نہیں کی
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پھر وہی لوگ جو حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب ترامیم کیسے آئین سے متصادم تھیں وجوہات کیا بتائیں گئیں،
قانون میں طے کردہ کرپشن کی حد سےکم کیسز دیگر عدالتی فورمز پر چلانے کا زکر ہے، وکیل وفاقی حکومت
مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی،
پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخت نہیں کرسکتی،
چیف جسٹس قاضی فائیز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی براہ راست سماعت دکھانے کی درخواست مسترد کردی۔ اس سے قبل سماعت میں وقفے سے پہلے بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے کیس کی سماعت کے دوران عدالتی کارروائی لائیو دکھانے کی درخواست کی۔جسٹس اطہر من االلہ نے لائیو سٹریمنگ کی حمایت کی اور کہا کہ مقدمہ پہلے لائیو چلتا تھا تو اب بھی لائیو چلنا چاھیئے۔