
مظفر آباد۔۔۔ زاہد مغل
آزاد کشمیرکے دل مظفرآباد کوجہاں قدرت نے خوبصورتی سے نوازا ہے وہیں یہ شہرتاریخی حوالے سے بھی اہم ہے۔ یہاں دریائے نیلم کے کنارے پرموجود قدیم قلعہ (لال قلعہ) کی صورت میں وہ آثار ہیں جو ہمیں اپنے ماضی کے ساتھ جوڑ کررکھتا ہے لیکن سالہا سال سے اس قلعہ کا تحفظ سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چک دور میں تعمیر ہونے والے اس قلعہ کی دیواریں اپنی بے بسی کے ساتھ ساتھ متعلقہ محکموں کی غفلت اور شہر کے منتخب نمائندوں کی لاپرواہی اور خودغرضی کا رونا رو رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی اس قلعے سے چند کلو میٹر دور ہے لیکن کسی کو اس کی خستہ حال دیواروں کاماتم دیکھائی نہیں دیتاہے ۔
حال ہی میں اس قلعہ کی مرمت کیلئے کروڑوں روپے کا منصوبہ منظور ہوا تھا لیکن اب وہ پروجیکیٹ متاثر ہورہا ہے۔
یعنی کے منتخب نمائندے اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اپنے محلے کے قلعہ کو نہیں بچا سکتے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ قلعہ کا ایک وزٹ تک نہیں کرسکتے۔
اس سے پہلے حلقے کے بڑے منصوبے آڑا دیے گئے ۔ایک پل فائنل ڈیزائن ہونے کے باوجود ختم کردیا گیا ۔
سرکاری طور پر کسی بھی آثار قدیمہ کے ارد گرد تین سو میٹر کی زمین کوئی استعمال نہیں کرسکتا ہے لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ قلعہ کے گیٹ کے باہر اور دیواروں کے ارد گرد بلاک بنانے کی فیکٹریز بنی ہوئی ہیں جو نہ صرف اس قلعے کی خوبصورتی کی تباہی کا باعث ہیں بلکہ یہاں آنے والے مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کیلئے باعث پریشانی بنتی ہیں۔
مین سڑک کی طرف قلعہ کے عین ساتھ پٹرول کی بڑی ٹینک رکھے ہوئے ہیں جو باہر سے آنے والوں کو یہاں کے مکینوں کی بے زوقی اور لاپرواہی کی داستان سناتے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق قلعہ کی اراضی بھی اب محفوظ نہیں۔ یہ قلعہ بدقسمتی سے حلقہ تین میں بنایا گیا تھا اس کے ایم ایل اے اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق ہیں ۔اس پر بار بار قبضہ کرنے والا بااثر مافیا پشاور سے دو ہزار ووٹ لے کر منتخب ہوتا ہے۔ خواجہ فاروق سے پہلے حلقہ تین سے ایم ایل اے افتخار گیلانی تھے اور دوران قبضہ وہ وزیر تعلیم تھے ۔
مظفرآباد کے لوگوں کی بدقسمتی کا یہ عالم ہے وہ بھی اپوزیشن لیڈر کی طرح موصوف کے قبضے پر مکمل خاموشی ہیں ۔
محکمہ اثار قدیمہ جس محکمے کا بنیادی کام ہے ایسے مقامات کی اراضی کو تحفظ کرنا ہےاور ٹورازم کو فروغ دینے کے لیے ایسے مقامات کی خوبصورتی سے ڈیزائن کرنا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ محکمہ اس پرانے قلعے کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا ہوا ہے ۔
ذرائع کے مطابق ماجد خان اور ناصر خان نامی دو بااثر شخصیات قلعہ کے ارد گرد کی زمین پر نظریں گھاڑ چکے ہیں۔
بتایا جارہا ہے کہ ان دونوں کو یہاں کے منتخب کردہ لوگ یہ اراضی اپنے مفادات کے لیے رشوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں اس وقت سیاحت کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور سیاح یہاں کی خوبصورتی کے ساتھ یہاں کے تاریخی مقامات بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ قلعہ جو تابناک تاریخ کا حصہ ہے آج اپنی بے بسی کا رونا رورہا ہے ۔ کچھ اپنی خسہ حالی ہے اور کچھ عوام اور عوام کے منتخب نمائندوں کی بے رخی پر ۔۔
قلعہ کی دیواریں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اگر اس وقت بھی خاموش رہے تو شاید میرا نام بھی صرف کہانیوں میں ملے گا ۔