
مسافر نے دروازے پر دستک دی. اندر سے ایک بزرگ نکلا.
مسافر نے کھانے کیلئے کچھ دینے کا سوال کیا.
جواب ملا میں بھی تمہارا جیسا ہی ہوں. گھر میں کچھ نہیں یے سوائے چند ٹوٹی ہوئیں تلواروں کے…
یہ تھے اسلامی تاریخ کے عظیم سپہ سالار… خالد بن ولید رضی اللہ عنہ…
وہی خالد بن ولید جنہوں نے اسلامی لشکر کی کمان کرتے ہوئے بے شمار علاقے فتح کیے. کئی جنگیں جیتی. دشمن ان کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے تھے.
خالد بن ولید کے دل میں شہادت کی تمنا تھی. لیکن وہ غازی بنے.
کئی جنگوں اور علاقوں کے فاتح سپہ سالار قرار پائے لیکن اب پیرانہ عمر ی میں نہ بنگلے نہ کوٹھے، نہ مال نہ دولت، نہ دیگر ملکوں کے ویزے نہ کسی ملک میں جائیداد… سپہ سالار کا کل اثاثہ.. جنگ میں ٹوٹی ہوئیں چند تلواریں ہیں… وہ بھی اتنی وزنی کہ اب بزرگ انہیں اٹھا بھی نہیں پاتے….
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر دروازے پر کھڑے مانگنے والے مسافر کی آنکھوں میں سیلاب رواں ہوا. وہ ایک نظر سفید ریش بزرگ کو دیکھ رہا ہے اور دوسری طرف اس کے ذہن میں جنگوں میں حاصل ہونے والے اس مال غنیمت کی تصویر چل رہی ہے جس کے وہ خود شاہد تھے.
مسافر بھی کوئی اور نہیں تھا… وہ سامنے کھڑے سپہ سالار کے سپاہی رہ چکے ہیں.
یعنی ایک سپاہی اپنے کمانڈر کے سامنے کھڑا ہے.. لیکن دونوں کےپاس اللہ کے نام کے سوا کچھ نہیں ہے…
کل کے کمانڈر اور سپاہی جنہوں نے مال غنیمت کے انبار دیکھے… جنہوں نے کئی ملک حاصل کیے جنہوں نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی جوانیاں دین کیلئے صرف کیں.. آج ان کے پاس میڈل ہیں نہ جائیداد…
لیکن تاریخ نے انہی بہادروں اور مخلصوں کو یاد رکھا. ڈنڈے کے زور پر نہیں… ان کے اخلاص کی وجہ سے…. ان کی رضا کی وجہ سے……
تحریر… مقصود منتظر