

معاشرے میں مذہبی انتہاپسندی جیسے وبال جان ناسور کی حقیقت اپنی جگہ لیکن کیونکہ ہم واہ واہ اور بلے بلے والے پاپولر اعلامیے کو چیلنج کرنا نہیں چاہتے اس لئیے ہمیں بس وہی سچ ماننا ہے جو زیادہ لوگ لائیک اور شئیر کریں۔
گزشتہ دو روز سے اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ میں عید قربان پر ہندو برادری کے ایک فرد سے ہونے والے واقعہ کو بغیر کسی تحقیق کے ایسے اچھالا گیا جیسے ہر فرد موقعے کا عینی شاہد ہو۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ نمل یونیورسٹی کے ( ہندو برادری )طالب علم جو کہ آئی ایٹ کے ایک ایسے ہاسٹل میں مقیم ہیں جو مسجد کے بالکل ساتھ جڑا ہوا ہے۔عید پر کیونکہ اسلام آباد خالی ہو جاتا ہے اس لئیے مسجد سے عمومی طور پر قرب و جوار کے ہاسٹلز جہاں صرف سٹاف ہوتا ہے انکو کھانا وغیرہ دیا جاتا ہے۔ اب مسجد سے کچھ لوگ گوشت دینے ہاسٹل پہنچ گئے ، وہاں پوچھنے پر ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ نماز عید پڑھنے کیوں نہیں ائے ، جس پر جواب ملا کہ میں ہندو ہوں اور ہمارے لئیے گائے کا گوشت ایسے ہی ہے جیسے آپ کے لئیے سور ہو۔ اس پر مسجد سے ائے افراد نے وہ گوشت ہاسٹل میں کام کرنے والے سٹاف کو دیا اور واپس چلے گئے، اسی دوران پڑوس سے ایک اور شخص کھانا لیکر پہنچا جس کے اس بچے سے وہی بات ہوئی جس پر اس سے معذرت بھی کی گئی اور پھر وہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔
اب معاملہ کہیں سے کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دیا جس کیبعد پاپولر اعلامیہ کو سپورٹ کرنے والی مخلوق نے پہلے تو اسکو نمل یونیورسٹی کا معاملہ بنایا ، پھر زبردستی مذہب تبدیل کروانے کی کوشش اور پھر رہی سہی کسر یوٹیوب ویوز والی مخلوق نے پوری کر دی۔ مقامی پولیس ( آئی نائن) نے فریقین کو تھانے بلایا جس پر بچے نے تو تھانے انے سے انکار کر دیا تاہم دوسرے دونوں فریقین تھانے گئے اور وہاں جا کر نا صرف معذرت کی بلکہ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں انکے مذہب کا پتا ہوتا تو کیا ان کو یہ کہتے کہ نماز پڑھنے کیوں نہیں ائے۔
خیر معاملہ تو حل ہو گیا لیکن پاکستان بھر میں بڑے بڑے نام نہاد تحقیقاتی صحافیوں کے ٹوئٹر ہینڈل کھول کر دیکھ لیں کیا کیا ٹوئٹ کرتے رہے کیا یہ تحقیقاتی صحافت ہے؟
سبسکرائبرز اور گھنٹی کا بٹن دبانے کی التجا کرنے والی مخلوق نے صحافت کا جنازہ بھر پور انداز سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے دیکھنے ہیں آخری رسومات کب ادا ہوتی ہیں