
تحریر.. محمد محمود
حویلی آزاد کشمیر کا ایک دور افتادہ ضلع ہے جس کا غالب حصہ لائن آف کنٹرل کیساتھ واقع ہے یہ ضلع آزاد کشمیر کے "پونچھ ڈویژن” کا انتظامی یونٹ ہے جو کسی دور میں دور افتادگی کے باعث بڑی مشکلات کا شکار تھا کیونکہ شاہرات کی خستہ حالی نے رسل و رسائل کو بری طرح متاثر کر رکھا تھا ، اس کی پسماندگی کے باعث یہاں باہر سے کوئی سرکاری ملازم اپنی تعیناتی کو سزا سمجھتا تھا ، اگر باغ یا راولاکوٹ سے کسی سیاستدان کو کسی سرکاری ملازم ( جن میں زیادہ تر محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے ،) سے رنجش ہوتی تو اسے سزا کے طور پر حویلی بھیج دیا جاتا جسے سنتے ہی اس سرکاری اہلکار کو ڈراؤنے خواب آنے لگتے ، باغ سے فارورڈ کہوٹہ کی روڈ خستہ حال تھی اور باغ سے صرف فارورڈ کہوٹہ پہنچنے تک چار گھنٹے کی مسافت بنتی تھی جبکہ ان سرکاری ملازمین کو کہوٹہ کے مضافاتی علاقوں ، بھیڈی مندھار ، ریجی ، ہلاں تک پہنچنے میں مزید 3 گھنے سفر کے بعد اپنی منزل تک پہنچنا ہوتا تھا ، خیر ، کچھ عرصہ بعد جب اس ملازم کا "سافٹ وئیر” اپ ڈیٹ ہو جاتا تو اس کی ٹرانسفر ہوم سٹیشن کے قریب کردی جاتی اس نصیحت کیساتھ کہ آئندہ "تابعدار ” رہنا ہے ،لیکن ما بعد یہاں کے منتخب نمائندوں نے حویلی کی ڈیوہلپمنٹ پر زیادہ توجہ دی ، خاص کر چوہدری محمد عزیز نے اس ریجن کی ترقی پر زیادہ فوکس کیا ، یہاں شہارات کو بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین کیا ، یہاں تک کہ حویلی کو رالاکوٹ براستہ تولی پیر لنک کیا جہاں سے اب راولپنڈی کے لئے سفر میں خاصی کمی ہو گی اور سفر بھی آرام دہ ہو گا جو اہلیان حویلی کے لئے ایک بڑا تحفہ ہے
حویلی کے لینڈ سکیپ کا زکر کیا جائے تو اس کے لئے ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے ، اس کے بعض حصوں کو چاند ستاروں کی خوبصورتی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ، ہر پہاڑی اور ہر میدان خوبصورت ہے ، اس کے مشرق میں پیر پنجال کے پہاؑڑی سلسلے کی آسمان چومتی پہاڑیاں ہیں جو اس ریجن کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں ، یہاں کی جنگلی حیات کا زکر کروں تو پرند ،چرند اور درند کی بھر مار ہے ، مارخور، جس کی ناف میں کستوری کا زخیرہ ہوتاہے ا ہے وہ یہاں خاصی تعداد میں موجود ہے ، سات رنگوں والا مرغ زریں (Golden pheasant ) خوبصورت پرندہ ہوتا پے یہاں موجود ہے ، اگرچہ یہ ہجرتی پرندہ ہے جو ماہ اگست کے آخر میں پیر پنجال کے پہاڑوں سے ہجرت کر کے حویلی میں آتا ہے ، اس کا شکار بھی مشکل ترین ہوتا ہے
زرا سوچئیے ، جس دن کشمیر آزاد ہوا تو حویلی کی ترقی اور سیاحت کی ترقی دوگنی چوگنی ہو جائیگی ، یہ برفانی رکاوٹیں دور ہو جائیں گی ، فارورڈ کہوٹہ سے پونچھ شہر تک رسائی ہو گی اور پھر ہجیرہ کے راستے راولپنڈی جانے میں سارا سال راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو گی ، بھیڈی والے ( چالیس ہزار آبادی والا گاؤں ) جو اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے وہ اوڑی شہر ( حال مقبوضہ کشمیر ) کیساتھ منسلک ہو جائے گا جس میں یہاں کے لوگ دس کلومیٹر سے بھی کم مسافت پر اوڑی پہنچ جائیں گے جہاں سے سری نگر اور مظفرآباد بھی بڑے آرام سے ہر سیزن میں جا سکیں گے
مجے قوی یقین ہے کہ فیسٹول میں باہر سے تشریف لانے والے مہمانان گرامی حویلی کے لینڈ سکیپ کی خوبصورتی کے علاوہ حویلی کے مکنیوں کے رویے ، مہمان نوازی اور اعلٰی اخلاقی اقدار سے بھی ضرور متاثر ہو کر جائیں گے ۔
میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ حویلی کسی دور میں جنوبی ایشیا کا ایک بڑا ٹورسٹ ریزارٹ بن جائیگا ۔۔۔۔۔