
آج یوٹیوب پرکشمیر کے حوالے سے ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔مہمان ارشاد احمد ملک میزبان شبیر چوہدری سے سید علی گیلانی مرحوم و مغفور،کنوینئر حریت کانفرنس غلام محمد صفی اور دوسرے حریت ممبران کے بارے میں بات کررہے تھے۔ان دونوں کی گفتگو کاکریکس عرض کرنے سے پہلے قارئین کو ارشاد احمد ملک کے بارے میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ موصوف کشمیری تنظیم مسلم جانباز فورس (ایم جے ایف) کے لیڈر رہ چکے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر آج کل لندن میں مزے کررہے ہیں۔
بہرحال ان کے انٹرویو کا حاصل یہ تھا کہ مرحوم کشمیری رہنما سید علی گیلانی انتہا درجے کے ناسمجھ اور بداخلاق انسان تھے اور اس بیہودگی کو سچ ثابت کرنے کے لئے موصوف بھارت کے اس مذاکراتی وفد کا حوالہ دیتے ہیں جو دہلی سے گیلانی مرحوم کی رہائش گاہ پر ان سے ملنے کے لئے آ یا تھا اور گیلانی نے انہیں دروازہ نہیں کھولا تھا اور اس طرح انہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ایک قیمتی موقع گنوا دیا تھا۔حالانکہ نہ صرف کشمیری بلکہ دنیا کے کونے کھدروں میں بسنے والے لاکھوں باشعور اور غیر متعصب لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرحوم گیلانی کی ساری زندگی "احترام آدمیت اور
انسان دوستی” کے لئے وقف تھی اور انہوں نے نہ صرف اپنے گھر،دفتر یا جلسے جلوسوں میں بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی اپنے اسی شاندار اخلاق و کردار سے ہرعام و خاص کو اپنا گرویدہ بنایا تھا۔
یہ اسی تابناک اخلاق و کردار کی کشش تھی کہ انتہائی جبر اور خوف کے ماحول میں بھی لاکھوں لوگ مرحوم گیلانی کے ایک اشارے پر سنگینوں کے سائے میں بھی جمع ہوتے اور اپنے محبوب قائد کی ہدایات سنتے ،ان پر عمل کرتے اور اس طرح تحریک آ زادی کے امام سے اپنی والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے۔
اب رہا دوازہ بند کرنے کا وہ سوال اور طنز جو ارشاد احمد ملک انٹریو میں اپنی ادھوری اور بلتکاری انگریزی کیساتھ مرحوم گیلانی صاحب پر کرتے ہیں۔اس بات سے بھی خاص وعام آ گاہ ہیں کہ گیلانی کا مسئلہ کشمیر کے تئیں ایک دوٹوک ،واضح اور مبنی بر حقیقت موقف یہ تھا کہ "بھارت سے ہماری کوئی دشمنی نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ پورا جنوبی ایشیاء ترقی کرے۔ لوگ آ زاد ہوں،ان کے حقوق محفوظ ہوں ۔ ترقی کا یہ خواب امن کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا اور مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہی اس پورے خطے کے امن کی کنجی ہے۔جب تک بھارت اس مسئلہ کی متنازعہ حیثیت کا اقرار اور اعتراف نہیں کرتا تب تک مذاکرات خودفریبی اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتے”۔یہی مذاکراتی وفد دہلی سے سرینگر روانگی کے وقت کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہہ کر ایک سازشی یاترا کا آ غاز کرتا ہے تاکہ کسی بھی طرح سے مزاحمت کی علامت مرحوم گیلانی کو” رام ” کیا جائے۔
مجھے حیرت بلکہ افسوس ہے ارشاد ملک کی عقل و سوچ پر کہ وہ مرحوم گیلانی کے اس مدبرانہ اور معصومانہ احتجاج کو بداخلاقی اور بیوقوفی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ارشاد ملک کو لگتا ہے کہ اگر گیلانی دروازہ بند نہ کرتے اور بھارتی مذاکراتی وفد میں شامل نیتاوں کی آ ؤ و بھگت کرتے۔ان کے لئے خوش آمدی کے بینرز لگاتے تو کشمیر اسی روز آ زاد ہوچکا ہوتا۔ بابا آ پ ہندوؤں کی تاریخ اور چانکیائی سیاست سے نابلد اور ناآشنا ہیں ورنہ آپ کشمیر کے عمر مختار مرحوم گیلانی کے اخلاق پر اس بھونڈے انداز سے انگلی ہرگز نہ اٹھاتے۔
رہی بات کنوئنیر حریت کانفرنس غلام محمد صفی پر آپ کے بیہودہ پروپیگنڈے کی۔ارشاد ملک صاحب آپ کا میزبان کہہ رہا تھا کہ آ پ مصنف اور پڑھے لکھے انسان ہیں۔ پھر بھی آ پ سورج پر تھوکنے کی حماقت کیسے کرسکتے ہیں! نہ صرف ہم کشمیری بلکہ ساری دنیا میں کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے لوگ خوب جانتے ہیں کہ غلام محمد صفی روز اول سے ہی مرحوم گیلانی کے دست راست رہے ہیں۔ یہ بزرگ ہماری تحریک آزادی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔اپ نے بالکل غلط جگہ پر نشانہ لیا ہے۔ اس بیہودگی،جھوٹ اور بد اخلاقی کو آپ کسی طرح بھی منوا نہیں سکتے۔جو لوگ نوجوانی سے بزرگی تک اپنی زندگی کی ایک ایک سانس تحریک کے لئے وقف کر چکے ہوں۔جن کی پوری زندگیاں ایک مقصد اور نصب العین کی آبیاری میں گزری ہوں آ پ جیسے سطحی انسان کی ان بے بنیاد باتوں کو کون سنے گا۔ویسے بھی آ پ مشکوک اور فرار ہیں۔ہاں ایک موقع آپ کے لئے ہے کہ
آپ پاکستان واپس آکر یہاں کے عوامی اور تحریکی حلقوں میں مرحوم گیلانی اور غلام محمد صفی کے بارے میں بات کرسکتے ہیں۔