
سفر نامہ… نوید اشرف خان
گڑھی حبیب اللہ انتظامی طور پر ضلع مانسہرہ کے زیر انتظام ایک خوبصورت قصبہ ہے ۔۔دریاء کنہار کے کنارے آباد اس خوبصورت قصبہ کے اردگرد پہاڑوں پر چیڑھ کے خوبصورت جنگلات ہمیشہ مجھے پرکشش محسوس ہوتے تھے ۔۔یہ مانسہرہ کی جانب سے آزاد کشمیر داخلے سے پہلے آخری قصبہ ہے ۔۔یہاں سے آدھے گھنٹے کے خوبصورت سفر کے بعد آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تک باآسانی رسائی ہوجاتی ہے
۔۔
گڑھی حبیب اللہ سے میری رفاقت تیس سال پرانی ہے ۔۔کنہار کنارے بستی اس خوبصورت انسانی بستی اور اس کی پرسکون خاموش سڑک کا سفر ہمیشہ دلفریب ہوا کرتا تھا ۔۔۔بہت پہلے جب ناران جانے کے لیے عطر شیشہ اور شاتے والا راستہ استعمال نہیں ہوتا تھا ۔۔۔تب مانسہرہ سے خوبصورت بٹراسی کے جنگلات میں سے گھومتی ہوئ ایک سڑک گڑھی حبیب اللہ اترا کرتی تھی ۔۔۔بٹراسی سے نکل کر دریا کا خوبصورت نظارہ ،گڑھی حبیب اللہ کی خوبصورت بستی ،اور بٹراسی کا خاموش خوبصورت گھنا جنگل بہت دلکش اور دل پر طویل عرصے کیلیے اپنا اثر چھوڑا کرتے تھے ۔۔۔اتنا طویل کہ آج تیس برسوں بعد بھی اس اثر سے نہیں نکلا جا سکتا ۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ 2005 کا خوفناک زلزلہ آیا اور بالاکوٹ ،مظفر آباد کی طرح گڑھی حبیب اللہ بھی شدید متاثر ہوا ۔۔زلزلے کے بعد میری گڑھی حبیب اللہ کی بستی سے آخری ملاقات تھی ۔۔۔ایک اجڑی بستی ۔۔۔۔دریا کے دونوں جانب خیمہ بستیاں لگیں ۔۔۔سفید رنگ کے اقوام متحدہ کے ہیلی کاپٹر اور پاک فوج کے جوان اور گاڑیاں امدادی کاموں میں مصروف ۔۔۔میں اداس دل کے ساتھ اجڑی اس بستی کو دکھی دل سے دیکھتا مظفر آباد چلا گیا ۔۔۔
اس کے بعد انیس سال تک میرا گڑھی حبیب اللہ سے کوئ واسطہ نہ رہا ۔۔ہمیشہ ناران کی جانب آتے جاتے بالاکوٹ جب گڑھی حبیب اللہ کا بورڈ لگا دیکھتا تو کھٹ سے یادوں کی کھڑکی کھل جاتی اور خوشنما جھونکے دے کر چند لمحوں بعد بند ہوجاتی ۔۔۔
جولائی 2024 کشمیر جاتے گڑھی حبیب اللہ سے گزر ہوا تو پرانی یادیں ایک فلم کی طرح چلنا شروع ہوگئیں ۔۔۔یادیں کب پیچھا چھوڑتی ہیں ۔۔۔دریاء کنارے بنے ایک ڈھابے پر جہاں سڑک کنارے چند چارپائیاں رکھی تھیں ۔۔۔گاڑی روکی !!
چاچا چائے ہے ۔۔۔
ہاں جی ملے گی ۔۔۔
دیسی دودھ والی یا ڈبے والے جعلی دودھ کی ۔۔۔۔؟
دیسی دودھ والی ہے ۔۔۔
اچھا پھر اچھی سی چائے پلا دیں ۔۔۔ہم تب تک دریا کنارے گھوم کے آتے ہیں ۔۔۔
گھوم کر آنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔چائے ہی دریا کنارے پہنچ جائے گی ۔۔۔
دریا سے نکلی ایک ندی ڈھابے کے بالکل پیچھے سے گزرتی تھی وہاں پر چائے سے لطف اندوز ہونے کے بعد میں واش روم استعمال کرنے ڈھابے کی جانب نکل آیا ۔۔۔
اور یہیں گڑھی حبیب اللہ کو زلزلے کے بعد ایک بار پھر تباہ ہوتے دیکھا ۔۔۔
زلزلے سے بحال ہوگیا گڑھی حبیب اللہ شاید اس تباہی کے بعد بحال نہ ہوپائے ۔۔۔۔
ڈھابہ ہوٹل کے ساتھ ہی موجود خالی جگہ پر چیڑھ کے بے شمار درخت کٹے پڑے تھے ۔۔چیڑھ کے تنوں نے مجھے دیکھ کر چلانا شروع کردیا ۔۔۔لیکن ہم دونوں کے پاس ماسوائے چلانے کے اور کوئ صورت موجود نہ تھی ۔۔۔
چیڑھ کے صدیوں پرانے کٹے درخت زبان حال سے گڑھی حبیب اللہ کی تباہی کا پیغام دے رہے تھے ۔۔۔یہ گٹا ہوا جنگل کسی سرکاری جگہ پر بھی نہیں تھا ۔۔۔یہ کسی طاقتور شخصیت کی ملکیت لگ رہا تھا ۔۔۔اتنا طاقتور کہ اس کے سامنے انتظامیہ بھی بے بس تھی ۔۔۔
لیکن یہ بھی میری غلط فہمی تھی ڈھابے پر بیٹھے ایک ملنگ نما بندے نے بتایا کہ انتظامیہ بے بس نہیں بلکہ حصہ دار ہے ۔۔۔اپنی قیمت وصول کرتی ہے ۔۔۔۔گوکہ وہ قیمت ان زمانہ شناس صدیوں پرانے درختوں کی ذندگی کی نسبت بہت کم ہوتی ہے ۔۔۔لیکن انتظامیہ برابر کی شریک ہے ۔۔۔
بیس سال بعد گڑھی حبیب اللہ سے نکلتے میں سوچ رہا تھا زلزلے کے بعد تو گڑھی حبیب اللہ پھر آباد ہوگیا ۔۔۔لیکن اگر بیس سال بعد میں یہاں سے گزرا ۔۔۔اور اس قتل عام کو نہ روکا گیا تو پھر شاید یہاں اجڑی ہوئی بستی دیکھنے کو ملے ۔۔۔۔
سر سبز وشاداب گڑھی حبیب اللہ ہمیشہ میری یاداشتوں میں محفوظ رہے گا ۔۔۔۔حکومتوں ،انتظامیہ سے ہٹ کر اس خوابوں کی بستی کے باسیوں کو خود اپنے تحفظ کیلیے کھڑا ہونا ہوگا ۔۔۔۔بصورت دیگر ایک بہت بڑی تباہی کے لیے تیار ہو جائیں ۔۔۔۔