
ریکھا کی سندرتا نسوانیت کا وہ روپ ہے جسے دیکھ کر کئیں پنچھی اڑان بھول جاتے اور کئیں ہرن راستہ بھٹک جاتے ہیں. اس کی قلا کے سامنے فن سر جھکائے کھڑا ہے, اس بات پر کسی کو شک نہیں ہو گا کہ ریکھا اپنے فن میں دیوی سمان ہے.. نہ جانے کن مدتوں سے میں ریکھا کا مداح تھا، ایسا مداح جس کی پسندیدگی، گرویدگی کی آگ پر بھڑک رہی ہوتی ہے…
”آستھا“ مووی کا دیکھنا شائد اتفاق تھا، اوم پوری کو ریکھا کے ساتھ دیکھا تو اس پر کسی کی رائے جاننا ضروری نہ سمجھا
شائد اسی لئے کہ ”بھگوان سیڑھیوں پر مل جائے تو مندر میں جانے کی کیا ضرورت ہے“
آستھا میں ریکھا اک گھریلو خاتون اور اوم پوری کی بیوی ہونے کا کردار ادا کرتی ہے
بالعموم مشرقی خانہ خاتون کے تمام ارمان اپنے شوہر سے ہی جڑے ہوتے ہیں، اور اسی کی بانہوں میں وہ تمام حسن بیتا دیتی ہے
ریکھا بھی ایسی ہی تھی، اک بچی کی ماں اور شوہر پر مر مٹنے والی عورت ….
اوم پوری کو سکرین پر آرٹسٹ کے روپ میں دکھایا گیا ہے، آرٹ خود سے جڑے ہوؤں میں بے نیازی اور قناعت بھر دیتی ہے, اوم پوری بھی قناعت کا پتلا تھا لیکن ریکھا تو آرٹسٹ نہ تھی، اسکی خواہشات تھیں اور انہیں پورا کرنے کی چاہ تھی. ان کی بچی کے تمام فیلوز کا تعلق الیٹ کلاس سے ہوتا ہے جہاں معیار شخصیت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مونو گرام ہوتے ہیں، جو جوتے،کپڑے، گھڑی اور ہر زیر استعمال چیز پر ہونے چاہیں. بچوں میں حسد کا جذبہ اور مسابقت فطری ہے, یوں اک بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے، ریکھا کا دل بچی کی طرح ہی دھڑکتا ہے لیکن اوم پوری انہیں لفاظی کے زور پر ماند کرنے کی کوشش کرتا ہے.
اسکی منطق خواہش کو خاموش تو کرا دیتی ہے لیکن ختم نہیں کر پاتی ..
”آرزو یا چاہت ذیادہ دنوں تک دل میں رہ جائے تو آدمی کسی پاگل جانور میں بدل جاتا ہے….. یہی آدمی جانور کا سب سے وحشی روپ ہوتا ہے“
کہانی کچھ یوں چلتی ہے کہ ریکھا اک ایسی عورت کے ہاتھ لگ جاتی ہے جو جسموں کی دلال ہوتی ہے. ریکھا کو وہ لنچ پر شامل کرتی ہے اور اک مرد کو بھی بلا لیتی ہے, اک ایسا مرد جو جانتا ہوتا ہے کہ عورت جس آگ پر پگھلتی ہے وہ کیسے مچلتی ہے، اور لمس کی کونسی طرز اسے خود سپردگی پر مجبور کر دیتی ہے. ریکھا خود کو روکتی ضرور ہے لیکن پگھل جاتی ہے, یہاں پر ریکھا پر اک نیا روپ اترتا ہے، ریکھا کا رومانس اتنا معیاری تھا کہ میرے دماغ کے وہ تمام بت دھڑام سے گر گئے جن کی سیکشوئل پرفارمینس کو میں آتش فشاں سمجھتا تھا۔
یہ فلم شادی، سیکس اور محبت کا اک نیا روپ دکھاتی ہے. محبت نامی پودے کو شادی کا گھن کھا جاتا ہے اور دوستی کو پہلی ہی سانس میں نگل جاتا, شادی کے بعد مرد و عورت کا تعلق صرف میاں بیوی تک محدود ہو جاتا ہے جس سے اک گہرا خلا دونوں کے بیچ حائل ہو جاتا ہے. اک ایسی ہی دراڑ بستر پر بھی آ جاتی ہے. محبوبہ اور بیوی کے ساتھ جنسی مجامعت کی طرز کا مختلف ہونا اک عجیب سی کمتری ہے جس میں خاندان کے ادارہ سے جڑا ہر جوڑا دوچار ہے.
میاں بیوی کے درمیان سیکس آرٹ نہیں رہتا، بلکہ ٹھنڈی چائے کا کپ ہوتا ہے جسے اک سیکنڈ سے بھی پہلے حلق میں اتار لیا جاتا ہے۔ اس نئے مرد نے ریکھا پر لمس کی کاری ضرب لگائی تھی اور اس میں ایسا انوکھا پن تھا کہ ریکھا بہتی ہی چلی گئی. درحقیقت اک خانہ خاتون پر جنس کا کینوس پہلی بار بچھا تھا. جس پر اس کو ایک دیوی کی طرح پینٹ کیا گیا اور اسکے بدن کی پرستش کی گئی۔
زرعی انقلاب کے بعد جب انسان نے سماج اور تہاذیب کی تشکیل کی اور خاندان کے ادارہ کو مضبوط کیا تو عورت کی حثیت مرد کی ملکیت کی ہو کر رہ گئی. یہ جاگیرداری کی افزائش کا وقت تھا اور غلام داری نمو پا رہی تھی، ظل سبحانی پیدا ہو رہے تھے. انسان، زمین، جانور سب کو مالک اور مملوک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور عورت بھی اسی زد میں آگئی. مرد کئیں نسوانی بدنوں کو نوچتا ہے لیکن یہ قبول نہیں کر پاتا کہ اسکی بیوی پر کسی کی نظر پڑے, پدر شاہی مرد کی بے باکی اور بے راہ روی اور عورت کے غلام ہونے کا نمائندہ نظام ہے. مرد کا بہت سے کنوؤں میں اشنان کرنا اسکی عیاشی ہے اور عورت پر کسی کنوئیں کے پانی کا اک قطرہ بھی گر جانا، عورت کے لئے ناقابل تلافی گناہ ہے جس کا نتیجہ غیرت کے نام پر قتل ہے، تاریخ میں ایسے قتلوں کی شرح کروڑوں کے ہندسے کو چھوتی ہے.
پدر شاہی سماج کا مرد بستر پر بیوی کو بے حس و حرکت پانا چاہتا ہے اور محبوبہ کو پورن ایکٹر کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے
عورت کے لئے پہلا رویہ شدید کوفت کا سبب اور دوسرا رویہ والہانہ پن کی حیثیت رکھتا ہے جو مسرت اور سرشاری سے بھرپور ہے۔
ریکھا جب اوم پوری پر اسی طرح برستی ہے جس طرح وہ اجنبی مردوں پر برستی ہے
اوم پوری جہاں گہری لذت سے سرشار ہوتا ہے وہاں پہلا ہی استفسار یہی پوچھتا ہے کہ ”تم نے یہ کہاں سے سیکھا“
بھرپور فور پلے کا مظاہرہ کرنے والی عورت سے جب یہ سوال کیا جائے تو وہ کئیں راز اپنی آنکھوں کی چمک میں دفن کر لیتی ہے
ریکھا کسی سہیلی کا نام لیتی ہے جس کے گھر اس نے بلیو فلم دیکھی تھی اور یہ اسی کا حاصل تھا جس کے بعد اوم پوری اسے ڈانٹ دیتا ہے۔ مرد کا یہ حاکمانہ تسلط ہی عورت کو جنسی گھٹن کی ان گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے کہ اسکے اندر سے جب کبھی لاوا پھٹتا ہے تو نہ جانے کتنی دیواریں گرا دیتا ہے اور کتنے کنوؤں کو سرشاری کے پانیوں سے بھر دیتا ہے۔
اک بہت ہی اہم چیز وہ یہ کہ بہت پہلوؤں کا احاطہ کئے جانے کے ساتھ اس فلم میں مشرقی عورت کی ذہنیت اور نفسیات کی پچیدگی کو بڑی گہرائ سے دکھایا گیا ہے
ریکھا ہر نئے مرد کے ساتھ سونے کے بعد گہرے پچھتاوے میں مبتلا ہوتی ہے. اس کی حسرتیں جو پہلے دم گھٹنے سے مر رہی ہوتی تھیں جہاں اب انہیں زندگی مل رہی تھی
وہاں اسکے دل کے تمام پھول مرجھا رہے ہوتے ہیں اور وہ گہرے گلٹ میں مبتلا ہوتی ہے
عورت کا جنسی کو لے کر گلٹ کا تعلق بہت پچیدہ ہے.
اک آزاد خیال لڑکی شراب کے نشے میں دھت جب اپنے بدن کے تمام راز کسی آشنا کے سامنے کھول دیتی ہے تو اگلی صبح اپنے پورے جسم پر ہاتھ ملتی ہے, شاید اسے لگتا ہے کہ اس نے ایسا کچھ کھو دیا ہے جس کو پھر کبھی نہیں پایا جا سکتا۔
اوم پوری کا کردار اک روش خیال مرد کا ہے جو اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتا ہے
ریکھا کا سیکس ورکر ہونا ، اوم پوری کی اک سٹوڈنٹ پر منکشف ہو جاتا ہے, ریکھا کی کہانی وہ اک فرضی کردار کے ساتھ اوم پوری کے گوش گزار کرتی ہے اور سوال وہیں پہ کھڑا رہ جاتا ہے کہ ایسا مرد کیا کرے گا ؟
غیرت کے نام پر قتل؟ طلاق؟ یا بیوفائی کی چادر کو متصور کر لینا جس میں اس کی بیوی لپٹی ہوتی ہے۔
کہانی انجام تک پہنچ جاتی ہے
اسی رات جب وہ دونوں بستر پر تھے تو ریکھا سوال دہراتی ہے
وہ جو بہت آگے بڑھ چکی تھی لیکن اب واپس پلٹنا چاہتی تھی
وہ اگر میں ہوتی تو آپ کیا کرتے؟
جوابا اوم پوری اپنے ہونٹ اسکے بدن کے سپرد کر دیتا ہے۔