
ہندوستانی فلم ANEKموضوعاتی اعتبار سے ایک حساس ترین فلم ہے۔ انڈیا کے بہت سے مشرقی صوبوں خاص طور سے آسام اور میانمار کے سرحدی علاقوں میں بہت سی علحیدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں ۔ ایک عام ہندوستانی ان دور دراز علاقے کے لوگوں اور ثقافتوں کو اتنا ہی جانتا ہے جتنا ہمارے اہل پنجاب بلوچ اور بروہی ثقافت جو جانتے ہیں۔ جس طرح پاکستان کے اکثر لوگوں نے بروہی زبان کو نہیں سنا ہوتا ہے اسی طرح انڈیا کے اکثر لوگوں نے ان مشرقی خطے کے لوگوں کی بھاشا کو نہیں سنا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی قد و قامت اور نین نقوش کی بنا پران کے لئے، چنوا، چپٹے اور کئی طرح کے تضحیک آمیز الفاظ استمعال کئے جاتے ہیں۔
نفسیاتی اور سیاسی طور پر یہاں کے اکثرلوگ ہندوستان کواپنا ملک نہیں سمجھتے ہیں۔
اتنے نازک موضوع پر فلم بنانا جس میں سیاست اور ریاست کے گٹھ جوڑ سے کئے جانے والے مظالم کی عکاسی کی جائے کوئی آسان کام نہیں۔
آپ اس فلم کو دیکھتے ہوئے فلم کے کرداروں کی جگہہ بلوچ و پشتون کردار تخلیق کیجئے۔ افسران کی جگہہ پاکستانی افسران کے کردار تخلیق کیجئے تو فلم کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
میں نے فلم سے کچھ ڈائیلاگ آپ دوستوں کے لئے نقل کئے ہیں:
لوگوں سے اسٹیٹ بنتا ہے سر
ہم لوگوں سے نہیں طاقتور گروپوں سے تعلق بناتے ہیں
ہم مفادات پر یقین رکھتے ہیں امن پر نہیں
کیا انڈیا کو پروٹیکٹ کرنے سے سارے انڈین پروٹیکٹ ہوجاتے ہیں؟
ہائر ایجنسی آفیسر: میں ٹرسٹ کے بزنس میں نہیں ہوں نہ کبھی تھا
ایجنسی ایجنٹ سے: میں تم سے پیار کی توقع کرتی ہوں اور میرے لوگ تمُ سے امنُ کی۔۔ کیا فضول توقعات تھیں
وہ اس جوہن سن کوُ پکڑ رہے تھے جو ہم نے( ایجنسی) نے بنایا تھا
یہاں کے لوگ اپنے آپ کو انڈین نہیں مانتے ہیں
امن کو اپنا لینا جنگ سے زیادہ مشکل ہوتا ہے، اس لئے جنگ کو ہی منتخب کیا جاتا ہے
بندوقیں اور گولیاں ایک ہی ہوتی ہیں لیکن انگلیاں مختلف
سر ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، امن یا امن کا معاہدہ
امن نہیں حاصل کیا جاتا، تشدد حاصل کیا جاتا ہے
امن کے لئے سوری sorry کنٹرول کے لئے
میں پوری اسٹیٹ کا موبائیل نیٹ ورک اور انٹر نیٹ بند کررہا ہوں
جن کے امن کے لئے آپ بات کررہے ہیں کیا ان کی ہی آواز بند کرنا چاہیں گے۔
یہ فلم اب نیٹ فلکس پر بھی دستیاب ہے