حسین ملنگنی پر ہزاروں دل فدا
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقصود منتظر
افسانہ نگار مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ مالک نے چند منظر صرف آوارہ گردوں کیلئے تخلیق کیے ہیں ۔ روزانہ ایک ہی بستر سے اُٹھنے والے یہ نہیں جانتے ہیں کہ کسی اجنبی وادی میں شب بسری کے بعد جب ایک آوارہ گرد اپنے خیمے سے باہر نکل کر جو منظر دیکھتا ہے وہ لمحہ مالک نے صرف اسکے لیے ایک لمحے کے لئے تخلیق کیا ہوتا ہے۔
مستنصر حسین کے اس نظریہ سے اوارہ گردوں کی ایک خوش بختی تو سمجھ آگئی لیکن آوارہ گردوں کی فہرست میں بھلا سرفہرست کون ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے لیکن دنیا میں ننگے پاوں گھومنے والے ہسپانوی اور ترکیہ کے سیاحوں نے اس سوال کا جواب آسان کردیا ۔ یورپ سے گلگت تک پیدل سفر کرنے والے تین عجیب و غریب انسانوں نے تو آوارہ گردی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔۔
عیسی ، رمضان اور جمرہ کو ننگے پاوں سخت چٹانوں، ریتیلے میدانوں اور تپتی سڑکوں پر یوں چلتے دیکھ کر نہ جانے مستنصر حسین کیا سوچتے ہوں گے ۔۔۔ پتہ نہیں مستنصر صاحب ان تین شدید ترین اوارہ گردوں کیلئے کیا پیش کریں گے ۔۔۔ یہ سوال اپنی جگہ لیکن جمرہ کیلئے ہر پاکستانی ان کی راہ میں دل بچھا کر بیٹھا ہے ۔
سادہ ، سوشیل ، صوبر، حسین اور دلکش جمرہ ہمت ، استقامت اور بہادری کی مثال بن چکی ہے۔ چہرے پرکمال کا اطمینان، آںکھوں میں سرمئی حیا، لبوں پر معصوم سی مسکراہٹ سجائے پتھریلے راستوں پر ننگے پاوں چلنے والی جمرہ ۔۔ کا ایک ایک قدم دیکھنے والوں پر غضب ڈھاتے جاتے ہیں ۔ رمضان اور عیسی کے ہم قدم چلتے چلتے جمرہ کہاں سے کہاں پہنچی ۔۔ شاید ان کو خود بھی معلوم نہیں ہے۔۔ لیکن وہ ہزاروں دلوں میں نفوذ کرچکی ہے۔ وہ جہاں جاتی ہے اسے خوش آمدید کہا جاتا ہے ۔ اس کی ہمت اور صبر کو داد دی جاتی ہے ۔۔ بدلے میں جمرہ ایک معصوم سے مسکراہٹ دیتی ہے ۔۔۔
سرخ رنگ جمرہ کا پسندہ رنگ ہے۔ شاید اس لیے کیوں کہ وہ ترکش ہے ۔۔ لال رنگ اس پر جھجتا بھی بہت خوب ہے اور اس کے چہرے کی رنگت سے ملاپ بھی کھاتا ہے ۔۔
طویل سفر وہ بھی پیدل اور ننگے پاوں ۔۔۔ جمرہ کا پیر جہاں بھی پڑتا ہے ۔۔ اس جگہ کی مٹی بھی اسے خراج تحسین سے نوازتی ہے ۔۔ گلگت میں اس کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں ۔ جمرہ جہاں جاتی ہے ۔ لوگ اس کے لیے راستے میں دل بچھا دیتے ہیں ۔ یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر صرف ۔۔ملنگنی۔۔ لفظ سرچ کرکے دیکھو ۔۔ آپ کی سماعتوں میں جتنے بھی رومانوی گیت اب تک محفوظ ہیں ۔۔۔ وہ اس ۔۔ حسین ملنگی ۔۔۔ پر لوگوں نے فٹ کررکھے ہیں ۔۔ سادگی تو ہماری زرا دیکھیے ۔۔۔ گانا ۔۔۔ سن اور دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ میٹھے رومانوی بول خاص ۔۔جمرہ۔۔۔ کیلئے لکھے گئے تھے ۔
پریوں جیسا بدن والی جمرہ صرف حسین نہیں ، احساس کا مجسمہ بھی ہے ۔۔ اس پر کوئی معمولی سا احسان کرے تو بدلے میں ایسا خراج دیتی ہے کہ احسان کرنے والا ہی شرمندہ ہوجاتا ہے ۔۔ جیسا کہ اسے گلگت میں ایک خاتون نے پانی کی ایک بوتل دی تو بدلے میں جمرہ نے خاتون کے ہاتھ کو ایسا بوسہ دیا ۔۔۔ بار بار اس ویڈیو کو دیکھنے کا دل کرتا ہے ۔۔
زمین پر حوروں کا روپ دھارے جمرہ کو دیکھ کر دل سے معصوم خواہش ہل چل پیدا کرتی ہے ۔ اور خاموشی سے لب یوں گنگنانے لگتے ہیں ۔
دل ہے کہ مانتا نہیں ۔۔۔اس دل پہ کس کا زور ہے ۔۔
تیری اوور کھینچا جارہا ہوں ۔۔۔ جانے یہ کیسی ڈور ہے ۔۔۔
ننگے پاوں چلنے والی اس سادی شہزادی کے ساتھ معروف سنگر عاطف اسلم کا ویڈیو بھی وائرل ہوچکا ہے ۔۔۔
ایک دل پھینک خاموشی سے جمرہ سے یوں ہم کلام ہورہا ہے ۔۔
تو اتنی خوبصورت ھے فدا دیدار پہ تیرے
تیرے بنا جینا پڑے ۔۔ ۔وہ پل مجھے نہ دے
ایک اور بے صبرے نے جمرہ کی سادگی اور دلکشی کو یوں خراج تحسین پیش کیا ۔۔۔۔
آئینے کی نظر لگ نہ جائے کہیں
جانا جان اپنا صدقہ اتارا کرو ۔۔۔۔
مستنصر صاحب ۔۔۔ سر ۔۔۔ آپ تو کہتے ہیں کہ مالک نے اوارہ گردوں کیلئے ان دیکھے خوبصورت منظر رکھے ہیں ۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔ جمرہ ملنگنی ۔۔ تو بہت آگے نکل گئی ۔۔۔ اس سادہ ملنگنی کیلئے ہر دل ، ہر آنکھ ، ہر خواہش ، ہر دھڑکن ۔۔ ہر پل اور ہر صدا ۔۔۔۔
اس ملنگنی پر ہر حسین منظر فدا ہے ،،،، ہر موسم رشک کرتا ہے ۔۔۔ ہر رومانوی بول بوسے دے رہا ہے ۔ اور ہر دل دعا دے رہا ہے ۔۔۔
مستنصر صاحب ۔۔ اب نئی لائن ۔۔۔ ضرور لکھنا پڑے گی ۔۔ جمرہ ۔۔۔ کو نظر میں رکھتے ہوئے ۔۔۔ اس کی حسن پر نہیں ۔۔۔ ننگے پیروں پر ۔۔۔