
نیدرلینڈز میں اگر آپ شام کو واک کرنے نکلیں تو آپ کو اکثر سڑکوں پر جوڑے ایسے ہاتھ تھامے سائیکل چلاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف جاتے ہوئے نظر آئیں گے۔
یہی حساب بیلجئیم کی ڈچ سائیڈ پر ہے پولینڈ اس سے ذرا مختلف ہے کہ وہاں فیملیز ہاتھ پکڑنے کی بجائے درمیان میں بچوں کی لائن بنا کر سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ سائیکلوں سے پیار کرتے ہیں۔ اور اپنے پریمی سے یہ سائیکل سے بڑھ کر پیار کرتے ہیں۔
نیدرلینڈ کی آبادی پونے دو کروڑ ہے جبکہ وہاں سائیکلوں کی تعداد دو کروڑ سے اوپر ہے۔ سائیکلیں جتنی زیادہ ہیں اتنا ہی ان کے چوری ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ یہی حساب یورپ کے باقی ممالک کا بھی ہے۔ یہاں کی عام سی سائیکل کی قیمت میں پاکستان میں مہران کار آ جاتی ہے۔
لیکن یہ کار کی بجائے سائیکل بہت پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک میں موٹاپہ بہت کم ہے۔
بات ہو رہی تھی سائیکل چلاتے ہوئے ہاتھ تھامنے کی، تو یہاں کے لوگ شادی نہیں کرتے عموما گرل فرینڈ کے ساتھ ہی دو تین بچے پیدا کر لیتے ہیں پھر ان بچوں کے ساتھ دس بارہ ممالک گھوم پھر کر انہیں یاد آتا ہے کہ شادی تو کرنا رہ گئی ہے سو تب شادی کرتے ہیں۔
لیکن
ان کی ریلیشن شپ ڈائنامکس بہت الگ ہے۔
پاکستان میں اگر کسی سے پوچھا جائے کہ گوری لڑکی کیسی ہوتی ہے؟ تو اس کا یہی جواب ہوگا کہ ان کا تو کوئی کردار نہیں ہوتا جب دل کرے آپ اس کو سمائیل کریں اور وہ کپڑے اتار کر آپ کے ساتھ لپٹ جائے گی۔
مگر
یہ بات نا ہونے کے برابر ہے۔ جتنی لڑکیاں یہاں کپڑے اتار کر اگلے کو لپٹنے کے لئے ترستی ہیں اتنی میرے خیال سے دنیا کے ہر ملک، بشمول پاکستان کے، میں موجود ہوتی ہیں۔
ورنہ یہ لوگ وفا کو لے کر بہت زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں۔ فرض کریں ایک لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ افئیر میں آ رہی ہے تو وہ پہلے کچھ ہفتے یا پھر ماہ تک بھی، اس کو جج کرے گی پھر جا کر اگر وہ سیریس لگتا ہے تو اپنے والدین سے ملوانے کے بعد اس کے ساتھ کسی قسم کا جسمانی تعلق رکھے گی۔ اب یہ لڑکی پر منحصر کرے گا کہ وہ کیسی تربیت کی حامل ہے لیکن ایسا بہت کامن ہے کہ لڑکی کسی بھی لڑکے کو خود تک رسائی مفت میں نہیں دیتی۔
وہیں پر
جب یہ لوگ ایک ریلیشن شپ میں آ جاتے ہیں مطلب ہماری طرح نکاح تو نہیں کرتے لیکن سارے نکاح والے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں تو یہ سختی سے ایک دوسرے کے ساتھ وفا کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ گو اب ایک بہت بڑی تعداد جو کہ نوجوان ہے وہ ایک کمیٹڈ ریلیشن شپ سے بھاگتی ہے لیکن یہاں ایک بار کمٹمنٹ کا مطلب ہے کہ لڑکے یا لڑکی میں سے کسی نے بھی کسی اور شخص کا ذکر تو دور سوچنا تک نہیں ہے ورنہ رشتہ ختم، اور یہاں طلاق کی شرح اسی لئے زیادہ ہے کہ یہ مذاق میں بھی چیٹنگ پسند نہیں کرتے ہیں۔
اب ہماری طرح ان کا دو شادیوں والا نظام تو ہے نہیں سو یہ ایسا مذاق بھی نہیں قبول کرتے جس میں اگلا شخص نئے ساتھی کے ذکر سے چھیڑے، بلکہ یہ یہاں ریڈ فلیگ ہے۔ یہ لوگ شادی نہیں کرتے لیکن شادی کے بغیر شادی سے بڑھ کر وفا نبھاتے ہیں۔
میں خود ایسے کئی کپلز کو دیکھ چکا ہوں جو ایک دوسرے کے ساتھ پانچ پانچ سال سے اوپر رہ رہے ہیں اور میرے ایج فیلو ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں۔
مطلب یہ لوگ اگر ایک بار کسی کو اپنے جسم کی رسائی دے دیں تو پھر جب تک ساتھ ہے تب تک کسی اور شخص کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتے وہیں پر جب ان کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا تو یہ خود جا کر اپروچ کرتے ہیں حتی کہ ان کی لڑکیاں بھی لڑکے کو پرپوز کر کے بوائے فرینڈ بنانا پسند کرتی ہیں۔
اس سے ہٹ کر یہاں بھی ڈانس کلب جانا ایک نارمل عادت نہیں سمجھی جاتی ہے۔ کنسرٹ پہ ہر کوئی جاتا ہے وہاں ناچتا ہے لیکن کلب میں صرف وہی جاتے ہیں جنہیں عارضی تعلقات بنانے ہوں اور زیادہ تر لوگ کلب جانے والی لڑکیوں کو دل سے اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایسا عمل اچھا نہیں ہے۔
ہاں ان کی ایک بات جو اکثر میچور کپلز کو بھی بری لگتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ پبلک میں ایک دوسرے کو بوسہ دینے سے نہیں کتراتے، اب اگر ہلکا پھلکا بوسہ ہو تو پھر سب کو نارمل لگتا ہے وہیں پر کوئی زیادہ چپک رہا ہو تو باقی لوگ منہ چڑھا کر انہیں اگنور کرنا پسند کرتے ہیں۔
لیکن ان کی یہ بات میرے جیسے دیسی کنواروں کا دل ضرور جلاتی ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ مجھے ان کے بوسہ لینے سے مسئلہ نہیں یا بینچوں پہ جھپیاں ڈالنے سے مسئلہ نہیں ہے مسئلہ اس بات سے ہے کہ مجھ کنوارے کے سامنے ایسا سب کرکے یہ جذبات جلا دیتے ہیں جو کہ واقعی میں قابل اعتراض بات ہے۔
اس لئے اگر آپ کبھی یہاں آئیں اور آپ شام کو واک پہ جائیں تو آپ کو کافی کپلز گھومتے نظر آئیں گے۔ خوش گپیاں کرتے نظر آئیں گے۔
وہیں پر کچھ سائیکل چلا رہے ہونگے تو کچھ رننگ بھی کر رہے ہونگے۔ غرضیکہ ہر کوئی کچھ نا کچھ انجوائے کر رہا ہوگا اور یہ سب دیکھ کر بہت پیارا لگتا ہے خاص کر ہاتھ تھام کر سائیکل چلانا بہت پیارا لگتا ہے۔