
عمران خان سے جیل میں ملاقات کا دن
تحریر ۔۔۔۔ محمد عمران
ایک طرف تحریک انصاف کے ورکرز سے فالورز سبکسرائبرز لے کر نام بنانے والوں کو "آزاد” کرکے یوٹیوبرز اور انفلوئینسرز کو قابو کرنے کا مشن زور وشور سے کامیابی کے مراحل طے کررہا ہے ۔
اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز ڈائیورٹ کرنے کیلئے نئی نئی سیاسی پارٹی کی سرگرمیاں بھی تیز ہوچکی ہیں۔
اس وقت تحریک انصاف کو ہر محاذ پر انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے، عوام پذیرائی تو آج بھی ہے لیکن ہر حال میں احتجاج کیلئے نکلنے اور پہنچنے والے جوشیلے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی مختلف کیسز میں قید ہے یا پھر پیشیاں بھگت رہے ہیں اور جو کچھ باہر ہیں وہ گراؤنڈ پر موجود قیادت سے خائف ہوکر ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔
علی امین گنڈا پور ہوں، سلمان اکرم راجہ یا پھر کوئی اور سینئر لیڈر ،سب ہی عوام سے بڑی تعداد میں نکلنے کیلئے اپیل کرتے دکھائی رہے ہیں کیونکہ حالیہ مظاہروں اور ریلیوں میں عوام کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر موجود نہیں تھی کہ جو امپیکٹ کرئیٹ کرسکے۔ ظاہر ہے جب ایک ساتھ دو تین لاکھ بندے سڑکوں پر ہونگے تو ادارے ان کیخلاف کارروائی کرنے سے پہلے بھی سوچیں گے لیکن جب تعداد ہی چند ہزار تک محدود ہوگی تو پھر انہیں منتشر کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ آپسی لڑائیوں اور سوشل میڈیا پر بھی تقسیم ہوتی تحریک انصاف پونے دو سال سے جاری کشمکش میں اب اپنی جد وجہد کو اس مرحلے پر کیسے ایک اچھا پش دے پائے گی ؟ یا پھر معاملات مزید ٹھنڈے ہوکر کسی ڈیل کا ڈھیل کی طرف بڑھیں گے ؟