
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی
اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ، عدالت حکم پراٹارنی جنرل نے فیض آباد کمیشن کی رپورٹ پڑھی ،کمیشن رپورٹ پرچیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے برہم کا اظہارکیا
سمجھ نہیں آرہا کس لیول کے ذہن نے رپورٹ تیارکی ہے کمیشن کومعلوم ہی نہیں انکی ذمہ داری کیا تھی، کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پررپورٹ تیارکردی، کس قسم کا انکوائری کمیشن تھا؟ انکوائری کمیشن نے لگتا ہے اپنا کام کسی اورکے سپرد کردیا تھا،انکوائری نظرہی نہیں آرہی، کوئی فائنڈنگ تک نہ دی سربراہ انکوائری کمیشن کہاں ہیں اٹارنی نے بتایاکہ وہ بیماراورپشاورمیں ہیں، چیف جسٹس نے رپورٹ پرمایوسی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کمیشن کہتا ہے ذمہ داردھرنا دینے والے نہیں پنجاب حکومت ہے اورپنجاب حکومت رانا ثناءاللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دارہیں، حلف کی خلاف ورزی کس نے کی یہ نہیں بتایا ساری رپورٹ پنجاب حکومت کیخلاف لکھ دی،اٹارنی جنرل نے بھی بنچ کے موقف کی تائید کی ، چیف جسٹس نے کہاکہ رپورٹ میں کہیں ٹی ایل پی کا ذکرنظر نہیں آ رہا جس کے فعل کی تحقیقات ہورہی ہیں ، اسلحہ لانے والوں کی نیت توواضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں عدالت نے حکم نامے میں کہاکہ رپورٹ ٹرمزآف ریفرنس کے مطابق نہیں، تحریک لبیک کے کسی رکن کا بیان ریکارڈ نہیں کیا رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک نظرآتی ہے ، رپورٹ میں برابری کا سلوک نہیں کیا گیا کسی سے حلف اورکسی کو سوالنامہ بھیجا گیا، سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن سے تحریری جواب طلب کرتےہوئے سماعت ملتوی کردی