
اسلام آباد سے گرفتار صحافی مطیع اللہ جان کو انسدادِدہشتگردی عدالت پیش کیا گیا۔ پراسیکیوٹر راجا نوید، وکلاء صفائی فیصل چودھری، ایمان مزاری اور ہادی علی عدالت پیش ہوئے۔ پراسیکیوٹرراجانوید نے مطیع اللہ جان کے 30 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی ۔
پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ مطیع اللہ جان کا کم سے کم 30 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے،مطیع اللہ جان کا تفتیش کے غرض سے جسمانی ریمانڈ چاہیے، انسددِ منشیات کے قانون میں 90 دن کے جسمانی ریمانڈ کی اجازت ہے،
جج طاہرعباس سِپرا کا پراسیکیوٹرراجانوید سے استفسار کیا کہ مطیع اللہ جان سے کیا برآمد کرنا ہے؟
اس پر پراسیکیوٹر نے کہا مطیع اللہ جان سے ائیس برآمد کرنی ہے۔ دیکھنا ہے مطیع اللہ جان کے پاس منشیات آئی کہاں ہے۔ پراسیکیوٹرراجانوید کے جملے پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے ۔
سماعت کے دوران وکیل ایمان مزاری نے کہا پراسیکیوشن نے کہانی بنائی، انہوں نے تو منشیات برآمد کرلی ہیں،
صحافی ثاقب بشیر روسٹرم پر آکر کہا حیرت کی بات ہے مطیع اللہ جان آئیس لیتےہیں اور چرسی بھی ہیں، رات گئے پوچھا گیا سگریٹ کون پیتاہے، میں اور مطیع اللہ جان نے کہا سگریٹ نہیں پیتے اور کیس آئیس کا بنا دیا، انسداددِہشتگردی عدالت دہشتگردوں کے لیے ہے، صحافیوں کے لیے نہیں،
جج نے ریمارکس دیئے مطیع اللہ جان کو چرسی تو نہیں کہا، جج کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگے
جج طاہرعباس سِپرا نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کا موقف ہے گولیاں آپ چلا رہےتھے،
وکیل فیصل چودھری نے موقف اپنایا کہ کس جواز پر مطیع اللہ جان کا تیس روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا؟ تین روز کا بھی نہیں بنتا،
جج نے کہا کہ الزامات میں دو چیزوں کو سامنے رکھا جائے،بتایا جارہا کہ مطیع اللہ جان صحافی ہیں جن سے ایسے واقعے کی توقع نہیں، کیا اس بنیاد پر ڈسچارج کیاجائے؟میں بھی مطیع اللہ جان کو جانتاہوں، مشہور صحافی ہیں، کیا کوئی صحافی نڈر ہو، حکومت پر تنقید کرے تو کیا کبھی کوئی جرم نہیں کرسکتا؟ کیا میں نے اپنی زاتی معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا؟
دوران سماعت جج کا کہنا تھا کہ پیچھے سے آواز آرہی ہے کہ ریمانڈ دے دیں
اس پر صحافی اعزاز سید نے کاہ کہ لگتا ہے جج صاحب پیچھے سے آپ کو کسی اور کی آواز آرہی ہے،
جج نے کہا کہ قلم کے ساتھ اسکرین آگئی ہیں تو معاملہ خراب ہوگیاہے،
وکیل صفائی کی جانب سے مطیع اللہ جان کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی گئی ۔۔ ایمان مزاری نے کہا کہ احتجاج میں کارکنان پر ڈائریکٹ فائر کیاگیا
اس پر جج نے کہا گولیاں، فائرنگ وغیرہ مسلہ نہیں ہے، سیاسی بیانات پبلک جگہ پر کریں، عدالت میں نہیں،
وکیل ہادی علی نے کہا مطیع اللہ جان کے خلاف درج مقدمہ بہت مزاحکہ خیز ہے، مطیع اللہ جان سینیر ناموں صحافی ہیں، حق گوئی پر جانے جاتے ہیں۔ مطیع اللہ جان پمز رات کو پہنچے تو لوگوں نے سیلفیاں لیں،ان کے ساتھ صحافی ثاقب بشیر بھی موجود تھے۔ وہ پمز میں احتجاج میں جانبحق کارکنان کی رپورٹنگ کررہےتھے،
آخر پر عدالت نے مطیع اللہ جان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا ۔عدالت نے مطیع اللہ جان کو فیملی سے ملاقات کی اجازت دےدی
مطیع اللہ پر ایف آئی آر
یاد رہے مطیع اللہ کو گزشتہ رات اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا ،مطیع اللہ کو ای نائن چیک پوسٹ سے گرفتار کیاگیا،ان کیخلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی اس کے مطابق مطیع اللہ جان کی گاڑی کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا، گاڑی کی ٹکر سے ڈیوٹی پر مامور کانسٹیبل مدثر زخمی ہوا،متن میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم نشے کی حالت میں تھا، ان کی گاڑی سے آئس ملی ہے ۔ انہوں نے اہلکار سے بندوق چھینی اور اہلکار پر تان دی