
کیون کارٹرجنوبی افریقہ کا ایک معمولی مگرکہنہ مشق فوٹو جرنلسٹ تھا۔اس نے اپنے پیشہ اورمنفرد تصویروں کے ذریعے سے افریقہ کے غریب ممالک کی غربت ، بھوک،افلاس اور لوگوں کو درپیش دیگر مسائل کودنیا کے سامنے اجاگرنے کیلئے ہمہ وقت کوششیں کیں
۔1993 میں کارٹر نے اس وقت شہرت کی بلندیوں کو چھواجب اس کی ایک تصویر نے عالمی ایوارڈپلی زر (Pulitzer Prize )حاصل کیا۔کارٹر نے یہ تصویر صومالیہ کے قحط زدہ علاقے میں ایک فوڈ پروگرام کے دوران کھینچی تھی۔ بھوک پیاس، افلاس، قحط کیا ہے اور کتنی بری چیزیں ہیں ؟اس تصویرکو دیکھ کر جواب یا وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ یہ تصویربھوک و افلاس کی وجہ سے انسانوں کی سسکتی زندگی اور خوفناک موت کی جامع تفصیل ہے ۔کارٹر کی اس دل دہلادینے والی تصویرمیں انتہائی کمزوراور لا غربچہ جو بظاہر ہڈیوں کا ایک چھوٹا سا ڈھانچہ نظر آتا ہے زمین پر رینگ رہا ہے اور قریباً 2 گز کے فاصلے پرایک گدھ اس بچے کے مرنے اوراس کاگوشت نوچنے کیلئے بے تاب ہے۔ افریقی فوٹو گرافر کی یہ تصویر جب نیویارک ٹائمز اوردنیا کے دیگر معروف اخبارات میں چھپی تو اس نے امیر ممالک کے لوگوں کی نیندیں حرام کردیں۔ لوگ سوال کرنے لگے کہ اس بچے کا کیا ہوااورکیا فوٹو گرافر نے اسے بچالیا۔
اس سوال کا جواب صرف تصویر کا خالق کیون کارٹر جانتا تھا۔افریقی فوٹو جرنلسٹ کو جہاں صومالیہ کی غریب عوام کی موت کی عکاسی کرنیوالی تاریخی تصویر سے دنیا میں جہاں شہرت ملی وہیں لوگوں کا سوال اس کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح بار بار چوٹیںمارتا رہا ،اس کا سارا سکون غارت ہوا۔کارٹر نے شاید اپنے پیشہ کو بچے کی موت پر فوقیت دی اس لئے اپنے ضمیر کو وہ مطمئن نہ کرسکا اور ابھی شہرت کا ایک سال بھی نہ گزارا تھاکہ اس نے خودکشی کرلی۔
قارئین ، زندہ ضمیر لوگ واقعی زندگی شیروں کی طرح گزارتے ہیں۔ انہیں سسک سسک کر زندگی گزارنی نہیں آتی۔ وہ جیتے ہیں تو فخر سے سراٹھا کر جیتے ہیں ، دن میں کئی کئی بار اندر ہی اندر مرنا انہیں نہیں آتا،انہیں ظلم سہنا آتا ہے نہ کسی کو ظلم سہتے ہوئے دیکھنا آتا ہے، انہیں جب کسی چیز پر ضمیر ملامت کرتا ہے تو وہ بے بس ہونے اور رونے دھونے کے بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ کیون کارٹر نے کیا ہے۔اگرچہ افریفی بچے کے موت کا ذمہ دار کارٹر نہ تھا پھر بھی اسے ضمیر نے ایک زندگی کو بچانے کے بجائے تصویر لینے پر بار بار ملامت کی۔
ضمیر کی ملامت نے کارٹر کو اتنا کمزور کیا کہ وہ خودکشی کا اقدام کرنے پر مجبور ہوگیا۔رونا دھونابزدل اور بے ضمیر لوگوں کی نشانی ہے ۔ ان کے جینے اور مرنے سے انسانیت کو کوئی فرق نہیں پڑتاوہ اگرکسی اعلیٰ منصب یا عہدے پر بھی فائز ہوں تو عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک ہی چھڑکتے ہیں۔انہیں کسی ریاست کے اختیارات بھی دیئے جائیں پھر بھی بے اختیاری ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔
آج جو دنیا کی صورت حال ہے وہ بےضمیروں سے بھری پڑی یے. کیا مشرق کیا مغرب.. یورپ امریکہ اور اسلامی ممالک سب فلسطینی میں معصوم بچوں کےقتل عام پر خاموش ہیں….
1 thought on “کیون کارٹر کی خودکشی اور امت مسلمہ کی خاموشی”