
عوام چاہے بجلی کے اضافی بلز ادا کرتے رہیں۔۔ سرکاری ملازمین کو بجلی مفت فراہمی جاری رہے گی۔۔۔وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔۔۔۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بولے بجلی سے متعلقہ اداروں کا ہر سرکاری ملازم 6 ہزار روپے کی مفت بجلی حاصل کررہا ہے،کہا ہم نے اٹارنی جنرل آفس سے بات کی ہے کہ کیسز جلد ختم کرائیں جائیں تاکہ مفت بجلی بند کی جائے
حکومت سرکاری ملازمین کی مفت بجلی کولے کر کچھ نہ کر پائی۔۔۔۔اسلام آباد میں وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے ایک طرف عوام پر 103ارب روپے کی اضافی بوجھ ڈالنے کا اعتراف کیا تو دوسری طرف متعلقہ شعبے سے منسلک ہر سرکاری ملازم کو چھ ہزار روپے کی مفت بجلی دینے سے متعلق بتایا۔۔۔بولے کیسز کی وجہ سے مفت بجلی روک نہیں سکتے۔۔۔
سینیٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں کمیٹی چیئر پرسن سینیٹر شیری رحمان نے کلائمنٹ چینج حکام پر برہمی کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہوا کہ آپ کمیٹی کے سامنے بریفنگ کے لئے تیاری سے نہیں آئے. منسٹری کو پتا ہی نہیں کی لوکل طور الیکٹرک وہیکل کی کتنی مینو فیکچرنگ ہو رہی ہے ،۔کمیٹی کو بریفنگ میں وزارت صنعت کے حکام نے بتایا کہ ملک میں اس وقت 52 لائسنس یافتہ ای بائیک مینوفیکچرر ہیں 22 ایسے جو اس وقت ای بائیک بنا رہے ہیں۔۔۔۔وزارت توانائی حکام کی جانب سے 2030 تک 30فیصد گاڑیوں کے الیکٹرک پر منتقل ہونے سے متعلق بریف کیا گیا ۔۔بتایا گیا کہ کراچی سے پشاور تک 8 چارجنگ اسٹیشن ہمارے پاس رجسٹرڈ ہیں۔۔اس پر چیئرپرسن شیری رحمان کا کہنا تھا الیکٹرک گاڑیوں کے ہدف کو حاصل کرنے میں چارجنگ انفراسٹرکچر کی کمی بڑی رکاوٹ ہے،
اجلاس میں بجلی کی پیداوار سے متعلق بھی پاور ڈویژن حکام نے بریفنگ دی ۔۔بتایا کہ 55فیصد بجلی ماحول دوست ذرائع سے پیدا ہورہی ہے ۔۔ پاور ڈویژن نے اس موقع پر پٹرولیم کھپت سے متعلق بھی اعداد وشمار کمیٹی کے سامنے پیش کیئے بتایا کہ ملک میں 30ملین موٹرسائیکل سالانہ 6ارب ڈالر کا درآمدی پٹرول استعمال کرتے ہیں ۔۔بتایا کہ موٹر سائیکل اور رکشہ ملک کے کل پٹرول کا 40فیصد استعمال کرتے ہیں ۔۔۔اس موقع پر وفاقی وزیر توانائی نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک کے پہلے بلڈنگ کوڈز متعارف کرائے ہیں تاکہ انرجی کا ضیاع بھی روکا جائے ۔ اس ضمن میں چاروں وزرائے اعلیٰ کو لکھا کہ صوبے میں جو بھی تعمیرات ہوں وہ ان کوڈز پر ہوں۔