
اسلام آباد ۔۔۔
اپوزیشن گرینڈر الائنس کے زیر اہتمام آئین کی بالادستی کے عنوان سے دو روزہ قومی کانفرنس دوسرے روز بھی جاری رہی لیکن انہیں ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے ہوٹل میں کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ہوٹل کے ریسپشن پر ہونے والی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، کنوینر عوام پاکستان، اور محمود خان اچکزئی، چئیرمین پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور چئیرمین تحریک تحفظ آئین پاکستان، کی دعوت پر اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرس میں ملک بھر سے سو,ل سوسائیٹی کے دانشوروں، میڈیا اور صحافی برادریی، سینئر وکلا اور انکی نمائندہ تنظیموں نے شرکت کی۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے کہ ہم نے پروگرام کے لیے ہوٹل انتظامیہ کو پیسے دیئے ہوئے ہیں،ایف آئی آر کا اندراج ہم ہوٹل والوں کے خلاف کروائیں گے، یہ ہمارے پیسے واپس کرتے یا ہمیں پروگرام کرنے کی اجازت دیتے،ہوٹل مینجمنٹ ہمارے پیسے کھا گئے ہیں، اس کانفرنس میں پاکستان کی بقا، سالمیت اور ائین پاکستان کی بات ہوئی ہے،ہم لوگ ملک کو مظبوط کرنے کی بات کر رہے ہیں،
چمن میں اپنی اسمبلی بنائیں گے
محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ جس حکومت نے چوری کی ہے ان سے مذاکرات نہیں ہونگے۔ میں اسی لئے مذاکراتی کمیٹی میں نہیں تھا۔ میں آج بھی اسمبلی میں بیٹھنا ظلم سمجھتا ہوں۔ یہ اسمبلی زور اور زر کے زریعے بنی ہے۔ بانی چیئرمین کو پیغام پہنچائے کہ اس اسمبلی میں نہ بیٹھے۔ ہم چمن میں اپنی اسمبلی بنائیں گے ۔۔ شہباز کی حکومت قاتل حکومت ہے۔ اس ملک کو بچانے کا واحد راستہ آئین ہے۔ آئین انسان کو چیخنے اور اجتماع کی اجازت دیتا ہے
علامہ ناصر عباس نے کہا ہے کہ ہم اپنی افواج کے خلاف بات نہیں کرتے ہیں،۔ ہمارے افواج کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ جو پاک فوج کے خلاف بات کرتا ہے،وہ ملک دشمن ہے۔ ہم کہتے ہیں ہر ادارے کا کہنا کا ہے اپنی زمہ داری وہ انجام دے۔ ہم اپنے ملک کے لئے خون کا آخری قطرہ دے دیں گے۔ ساری خرابیاں اقتدار کے حصول کی سیاست کرنا ہے ۔ ہر حال میں اقتدار پاس رکھنے کے لئے سب کچھ کر گزر جاتے ہیں۔ بانی چئیرمین پاور پالیٹکس کے خلاف ہے ورنہ وہ جیل میں نہ ہوتا۔ اللہ نہ کرے ہمارا ملک ٹوٹے ،ہم محب وطن ہیں آئین کو مانتے ہیں،۔اگر ریفارمز پر بات نہیں کرنے دو گے تو ہم یہ بات نہین مانیں گے۔ ان قوتوں کو تقویت دی جارہی ہے جو پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ کانفرنس کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں ایسا میثاق بن جائے جس پر ساتھ چلنا آسان ہو۔بلوچستان کے لوگ 75 سال سے مار کھا رہے ہیں ۔
سلمان اکرم راجہ بولے کہ مختلف جماعتیںں مقتدرہ کے ذریعےاقتدار حاصل کرتی رہیں۔ ماضی میں بہت غلطیان ہوئیں اب ماضی میں نہیں پڑنا۔ چادر چاردیواریوں کو پامال کیا گی۔ یہ سیاست نہیں شرافت کا معاملہ ہے۔ 8 فروری کو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ ہم محب وطن ہیں ،اس طرح حکومت نہیں چل سکتی۔ سندھ اور کے پی کے میں بسنے والے پاکستانی ہیں۔ ہم نے یکجا ہوکر ْآواز اٹھائی تو کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی
کشمیر ڈیموکریٹ موومنٹ پارٹی کی رہنما نبیلہ ارشاد نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس کانفرنس کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتی ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین یہاں موجود ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے ہم نے اپنا مسقتبل وابستہ کیا۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم قائد پاکستان کآ حصہ بننا چاہتے تھے۔ آج غیر جمہوری طاقتوں قابض ہیں۔ ہم مودی کو اپنا دشمن نمبر ون ہیں۔
جی ڈی اے رہنما گلزار سومرونے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے اس کانفرنس میں پہنچا، گیٹ بند ملا۔ ہمیں ایک نقطہ سمجھنا ہوگا، پاکستان ایک کا نہیں، ہم سب نے پاکستان بنایا ۔ ہم بھاگنے والوں میں نہیں ہیں ۔ہم ملک کے لئے لڑیں گے اور مریں گئے ۔ جو ملک کے خلاف بات کرتےہیں، سندھ کے عوام ساتھ دیں گے
سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ آج اس کنونشن کو روکنے کی کوشش کی گئی، اس کنونشن روکنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آئین چور ہیں۔ اب وفاق میں بیٹھ کر چند افراد گفتگو بھی نہیں کرسکتے۔ یہ تمام قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان ہیں۔ جو سندھ سے آئے تھے اپنے لوگوں کے کہہ کر کہ تمہارے حق کی بات کرنے جا رہے ہیں۔ وہ رہنما اپنے لوگوں کو کیا جواب دیں گے۔ ان حالات میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آئین کی بالادستی کی بات کی جارہی ہے
مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ بلوچوں کے مال مویشی خریدنے سے منع کرنے جیسے مظالم سہے ۔ بلوچوں کے خالف فتوے جاری کئے گئے ۔ پھر پہاڑوں پر جاکر مزاحمت کرنے والوں کو معافی دینے کی بات ہوئی۔ اسی سالہ بوڑھے کاتعاقب کرکے پہاڑوں میں مار دیا گیا۔ ایک صوبے کو جان بوجھ علیحدگی پر مجبور کررہے ہو
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عوام اٹھ چکی ہے عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا ۔ اپوزیشن کی کانفرنس کامیاب ہو گی ہے ۔عدلیہ کی آزادی ہونی چاہیے اور رول آف لاء ہونا چاہیے ۔ میں نے مشورہ دیا تھا کہ کے پی ہاؤس میں کانفرنس کر لیں لیکن کیمٹی کا فیصلہ تھا کہ ادھر کی جائے ۔ انقلاب کی بات نہیں ہے، عوام کی آواز اٹھانی چاہیے اور وہ اٹھ چکی ہے۔ حکومت میں بیٹھے لوگ 50 کروڑ خرچ کرکے اخبار میں اپنی تصویریں لگواتے ہیں انکی عوام میں کوئی مقبولیت نہیں ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانفرنس کا اعلامیہ :
۲۶-۲۷ فروری ۲۰۲۵ کو اسلام آباد میں پاکستان کی تمام حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے ملک میں چوری شدہ انتحابات کے ذریعے قائم ہونے والی غیر نمائندہ حکومت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام، مایوسی، معاشی مشکلات اور صوبوں میں بگڑتی ہوئی امن عامہ کی صورتحال کے پیش نظر ، سابق وزیر, اعظم شاہد خاقان عباسی، کنوینر عوام پاکستان، اور محمود خان اچکزئی، چئیرمین پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور چئیرمین تحریک تحفظ آئین پاکستان، کی دعوت پر اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرس میں ملک بھر سے سو,ل سوسائیٹی کے دانشوروں، میڈیا اور صحافی برادریی، سینئر وکلا اور انکی نمائندہ تنظیموں نے بھی شرکت کی۔
کانفرنس میں ملک کے بگڑتے ہوئے حالات پر گہرا اظہار, تشویش کیا گیا اور دو روزہ بحث کے بعد وطن عزیز کو بحران سے نکالنے کے لئیے تجاویز پیش کی گئیں۔
ایک نقطے پر خزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں اور شرکا, کانفرنس کا مکمل اتفاق تھا اور وہ یہ کہ ہمارا وطن, عزیز آئین کی بالا دستی اور اسکی حرمت کے تحفظ کے بغیر، قانون کی حکمرانی کو یقینی بناے بغیر اور قابل اعتبار نظام, عدل کی غیر موجودگی میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔
کانفرنس کی بحث میں شریک سیاسی جماعتوں کا مندرجہ ذیل نقاط اور مطالبات پر مکمل اتفاق ہے:
– کہ، ملک کے مسائل کا حل صرف اور صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں ھے۔
– کہ، ۸ فروری 2024 کے دھاندلی شدہ انتخابات کے نتائج ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کا ذمہ دار ہیں۔
– کہ، موجودہ پارلیمنٹ کے وجود کی کوئی اخلاقی، سیاسی اور قانونی حیثیت نہیں۔
– کہ، ھم آئین کی روح سے مصادم تمام ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
– کہ، آئینی انسانی حقوق کی بے دریغ پامالی ملک میں قانون کی حکمرانی کی مکمل نفی ھے اور اس غیر نمائندہ حکومت کی فسطایت کی واضح دلیل ھے۔
– کہ، ھمارا آئین کسی پاکستانی شہری کو سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کے لیے ہراساں، گرفتار یا جیل میں ڈالنے کی اجازت نیہں دیتا اور تمام سیاسی اسیروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
– کہ، ھم عوام اور میڈیا کی زبان بندی کرنے کے لیے کی گئ PECA ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ھیں۔
– کہ، بلوچستان، خیبر پختونحواہ، پنجاب اور سندھ میں لوگوں کی شکایات اور شکووں، خاص طور پر پانی کے وسائل کی تقسیم ۱۹۹۱ کے واٹر ایکورڈ کے مطابق ھونی چاھیے، پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اور ان کو حل کئے بغیر ملک میں امن عامہ کی روزبروز بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا نہیں دیا جا سکتا۔
– کہ، ملک کے موجودہ بحران کا واحد حل آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ آج ملک کے بگڑتے ھوے حالات کا تقاضہ ھے کہ ملک کی قومی قیادت اپنے حالات اور معاملات کو پس پشت ڈال کر ایک قومی ڈائیلاگ کے ذریعہ پاکستان کو مستحکم کرنے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئیے ایک متفقہ حکمت عملی تیار کرے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
یہ کہ، پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتیں اس علامیئے کے مندراجات کو عملی جامہ پہنانے کے لئیے اجتماعی عملی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کرتی ھیں اور یہ جدوجہد پاکستان کے مسائل کے حل اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانے تک جاری رھے گی۔