
9
تحریر…. سردار عبدالخالق وصی
وزیر اعظم شہباز شریف کی سب سے بڑی مہارت بحرانوں کو موقع میں بدلنے کی رھی ھے وہ ھمیشہ مسئلے کو حل کرنے کا فن جانتے ھیں اس بار بھی انہوں نے کمال حکمت عملی سے سیاسی اور انتظامی پیچیدگیوں کو کمال دانشمندی اور اعلیٰ بصیرت سے سنبھالا ھے
کہتے ھیں بہت سے باورچی ھوں تو کھانا جل جاتا ھے مختلف نظریات اور ایجنڈے رکھنے والی جماعتیں جب حکومت میں شامل ھوں تو پالیسی سازی میں رکاوٹیں آتی ھیں۔
مخلوط حکومت ایک ایسا رقص ھے جہاں سب کو اپنی دھن پر ناچنے کی خواھش ھوتی ھے مگر دھنیں الگ الگ ھوتی ھیں
مولانا وحیدالدین احمد مرحوم کا قول فیصل ھے کہ اتفاق میں برکت ھوتی ھے مگر جب اتفاق صرف مصلحت کی زنجیر میں بندھا ھو، یہ بوجھ بن جاتا ھے۔
سیاست میں اتحادی ایسے ھوتے ھیں جیسے دھوپ میں سایہ جب تک مفاد کا سورج چمکتا ھے ساتھ رھتے ھیں ورنہ غائب ھو جاتے ھیں۔
مخلوط حکومت میں اختلاف رائے پالیسی سازی میں تاخیر مفادات کی جنگ،قیادت کے بحران اور عوامی و سیاسی توقعات کو پورا کرنے میں مشکلات درپیش ھوتی ھیں یہ حکومت اتحاد اور مفاھمت کے اصولوں پر قائم ھوتی ھے مگر جب نظریاتی اختلافات اور سیاسی مفادات آڑے آتے ھیں تو استحکام خطرے میں پڑ جاتا ھے۔
یہ تمہید بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ شہباز شریف کے لئے وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ھے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی کامیابی میں انہیں اپنے قائد اور برادر اکبر میاں محمد نوازشریف کی مدبرانہ مشاورت و راھنمائی، صدر پاکستان آصف علی زرداری،اراکین کابینہ سینیٹر اسحاق ڈار،پروفیسر احسن اقبال،رانا ثنا اللہ، محسن نقوی،محمد اورنگزیب، اویس لغاری،عطا اللہ تارڑ و دیگر وزراء و معاونین کی معاونت اور سب سے بڑھکر آرمی چیف سید عاصم منیر کی بھرپور سپورٹ بھی دستیاب رھتی ھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی پل کا کردار ادا کیا اور ان کے تحفظات کو عملی حل فراہم کیا۔
اتحادیوں کو کابینہ میں موزوں حصہ دیا تاکہ سب کو اقتدار میں اپنی نمائندگی محسوس ہو۔
سمجھوتے کی سیاست میں مہارت دکھاتے ہوئے بڑے فیصلوں پر اتحادیوں کا اتفاق رائے حاصل کیا
شہباز شریف نے تعلقات کی ڈور کو بہت نرمی اور مہارت سے سنبھالا، جس کی بدولت
فوج اور سول حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی دیوار نہیں کھڑی ہونے دی۔
قومی سلامتی اور معیشت پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مشاورت اور مفاہمت کی پالیسی اپنائی۔
حساس معاملات پر ٹکراؤ کے بجائے مکالمے اور سفارتکاری کو ترجیح دی۔
عدالتی دباؤ کو مدبرانہ حکمت عملی سے ہینڈل کیا
ماضی میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے ن لیگ کے لیے چیلنج بنتے رہے، لیکن اس بار شہباز شریف نے عدلیہ سے تصادم کے بجائے قانونی جنگ اور پالیسیوں کے ذریعے راہ نکالی۔
آئینی بحرانوں میں قانونی ماہرین کی مدد سے معاملہ فہمی کا ثبوت دیا۔
عدلیہ کو اپنے بیانیے کے مطابق قائل کرنے کے لیے بردباری اور شائستگی کا مظاہرہ کیا۔
معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اس میں جہاں ماہرین معیشت کا کردار ھے وھاں آرمی چیف سید عاصم منیر کی انتھک محنت اور وزیراعظم کی اپنی زھانت اور مالیاتی معاملات کو سمجھنے کی خدا داد لیاقت کا بڑا حصہ ھے۔
ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے کشتیاں جلانے کا حوصلہ دکھایا اور
آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کر کے معیشت کو استحکام دیا۔
سعودی عرب، چین اور دیگر دوست ممالک سے نرم شرائط پر مالی معاونت حاصل کی۔
زراعت، صنعت، اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا آغاز کیا۔
عوامی حمایت برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی
مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کے باوجود عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ مسائل کا حل جاری ہے۔
سوشل ویلفیئر پروگرامز اور عوامی منصوبوں کا تسلسل برقرار رکھا۔
اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف کی جارحیت کے باوجود حکومتی کارکردگی کے ذریعے بیانیہ مضبوط رکھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی جنگ کو حکمتِ عملی کے ذریعے جیتنے کا مظاہرہ کیا۔ ان کی انتظامی مہارت، سیاسی بلوغت، اور عملی ذہانت کی بدولت وہ ایسی حکومت کو چلانے میں کامیاب رہے، جو دیکھنے میں کمزور نظر آتی تھی، مگر فیصلہ سازی میں فعال ثابت ہوئی۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ
نہ تخت مضبوط تھا، نہ تلوار تیز، مگر شہباز شریف نے اپنی حکمت سے بازی پلٹ دی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا رہا، جن میں سیاسی، معاشی، تزویراتی، انتظامی، توانائی، مہنگائی، ماحولیاتی، داخلی اور خارجی مسائل شامل تھے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے میں آرمی چیف سید عاصم منیر کی بھرپور معاونت و راھنمائی حاصل رھی اور وزراء کی معاونت بھی شامل رہی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑی فراخدلی سے جنرل سید عاصم منیر کی اس معاونت کا بر ملا اظہار بھی کیا اور انہوں نے اپنے سیاسی اتحادیوں کے تعاون کا بھی اعتراف کیا اور کہا ھم سب نے ایک ھی کشتی کے سوار کے طور پر سب چیلنجز کا یکجا ھوکر مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے نوازا۔
معاشی چیلنجز اور حکمت عملی:
حکومت کو بڑھتے ہوئے قرضوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جیسے مسائل کا سامنا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) پر نظرثانی کا عندیہ دیا، تاہم صوبوں کے درمیان اتفاق رائے کی کمی کے باعث یہ مشکل ثابت ہوا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کے لیے مذاکرات کیے گئے تاکہ معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔
سیاسی اور داخلی سلامتی کے مسائل:
سیاسی عدم استحکام اور خیبرپختونخوا میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں حکومت کے لیے بڑے چیلنجز تھے۔ سیاسی مفاہمت کی کوششیں اور اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ داخلی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
انتظامی اور توانائی کے مسائل:
بجلی اور ٹیکس چوری جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت نے اقدامات کیے۔ وزیراعظم نے بجلی اور ٹیکس چوری کو زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے ان مسائل کے حل پر زور دیا۔
مہنگائی اور عوامی مشکلات:
حکومت کو بلند ترین مہنگائی کی صورت میں عوامی مشکلات کا سامنا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا، جس سے عام آدمی متاثر ہوا۔
خارجہ تعلقات اور سفارتی چیلنجز:
پاکستان کے دو بڑے اتحادی ممالک امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنا اور بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات سے نمٹنا حکومت کے لیے مشکل سفارتی چیلنجز تھے۔
ان چیلنجز سے نمٹنے میں آرمی چیف اور وزراء کی معاونت شامل رہی۔ کابینہ میں شامل ماہرین اور ٹیکنوکریٹس نے معاشی اور انتظامی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔
مجموعی طور پر، شہباز شریف کی حکومت نے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں اپنائیں اور ملکی استحکام تک کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) ہمیشہ سے آئین و قانون کی بالادستی، عدلیہ و میڈیا کی آزادی، مکالمے اور جمہوری اقدار کی امین و علمبردار رہی ہے۔ ایک جمہوری جماعت ہونے کے ناطے، مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ قومی مفادات کو مقدم رکھا اور ایسی پالیسیوں کو فروغ دیا جو ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کو یقینی بنائیں۔
ملک میں جاری سیاسی بحران کے دوران، اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے ایسے اقدامات دیکھنے میں آئے جو نہ صرف جمہوری اصولوں کی نفی تھے بلکہ انہوں نے ریاستی اداروں، عدلیہ، اور قومی سلامتی کے امور کو بھی متاثر کیا۔
تحریک انصاف نے بیرونی سطح پر پاکستان کے قومی مفادات پر حملے جاری رکھے اور اندرونی طور پر ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کا رجحان اپنایا۔ اس صورتحال میں حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑے تاکہ قومی اداروں اور آئینی نظام کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت نے ایسے قانونی و آئینی اقدامات کیے جو ملک میں بے لگام پروپیگنڈے، جھوٹی خبروں اور اداروں کے خلاف زہریلی مہم کو روکنے کے لیے ضروری تھے۔ ان میں پیکا قوانین میں ترامیم شامل تھیں تاکہ میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
یہ اقدامات ناگزیر تھے کیونکہ ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے تھے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کے ذریعے عوام میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
قومی سلامتی کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ بیانیہ اپنایا جا رہا تھا، جس سے پاکستان کے سفارتی اور اندرونی استحکام کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔
مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ آئینی اداروں کے احترام، مکالمے اور جمہوری اقدار کی بحالی پر زور دیا ہے۔ پارٹی کی قیادت کا ہمیشہ سے یہی مؤقف رہا ہے کہ عدلیہ، میڈیا، اور انسانی حقوق کا تحفظ جمہوریت کے لیے لازم ہے، اور کسی بھی غیر جمہوری قوت کو ان پر سمجھوتہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔
تاہم، جب ریاست مخالف سرگرمیوں، اداروں کے خلاف بے بنیاد مہم، اور قومی سلامتی پر حملوں کا سلسلہ بڑھا، تو حکومت کو ضروری اصلاحات اور سخت قانونی اقدامات اٹھانے پڑے تاکہ ریاست، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ہر دور میں جمہوری اصولوں کی پاسداری، عدلیہ و میڈیا کی آزادی اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کیا ہے۔ تاہم، جب اپوزیشن کی طرف سے غیر جمہوری ہتھکنڈے، ریاست مخالف بیانیہ، اور اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، تو حکومت کے لیے ملک و قوم کے مفاد میں سخت اقدامات لینا ناگزیر ہو گیا۔ ان فیصلوں کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے جمہوری استحکام اور قومی مفادات کا تحفظ تھا، جو مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا بنیادی اصول ہے۔
موجودہ دور حکومت میں شنگھائی تعاون آرگنائزیشن کی میزبانی، اھم ممالک کے سربراھان اور اعلیٰ سطحی وفود کی پاکستان آمد وزیراعظم کے بیرون ممالک دوروں اور اعلیٰ سفارت کاری مہنگائی میں نمایاں کمی،معیشت کی بہتری،قرض میں کمی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور کھیلوں کے فروغ اور پاکستان میں انعقاد سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ میں گراں قدر اضافہ ھوا ھے اور اسکے دور رس اثرات مرتب ھونگے۔