
تحریر ۔۔۔ مقصود منتظر
اخبار نکالنا آسان کام بالکل بھی نہیں ہے وہ بھی اس دور میں جب اخباری دنیا تیزی سے سکڑ رہی ہو۔ یہ ایسی بٹھی ہے جس میں جنتا بھی دھن ڈالتے رہو اس کا پیٹ ہرگز نہیں بھرتا۔ اس صنعت میں بے شمار کروڑ اور ارب پتی افراد سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ لیکن آزاد کشمیر کے اخبار مالکان کو دل کھول کر داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے معمولی سرمایہ کی بدولت سفر کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے اداروں میں آج بھی سینکڑوں لوگ برسر روز گار ہیں ۔ یعنی ان اخبارات کی بدولت کئی لوگوں کے چولہے جل رہے ہیں ۔ بے شمار لوگوں کی امیدیں زندہ ہیں ۔
آزادکشمیر کی اخباری صنعت میں روزنامہ کشمیر ایکسپریس ، روزنامہ جموں و کشمیر ، روزنامہ صدائے چنار ،روزنامہ کشمیر لنک، روزنامہ صدائے وقت ، روزنامہ جنت نظیر سمیت کئی اداروں کے مالکان نے مشکل وقت میں چٹان بن کر معاشی معاملات کا سامنا کیا ۔ آج یہ ادارے بن چکے ہیں اور ان میں سینکڑوں لوگ کام کررہے ہیں ۔ بڑے اداروں کے ساتھ یہاں کئی چھوٹے اخبارات بھی ہیں جن کا سفر اس ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں بھی کامیابی سے جاری ہے ۔
ان ہی میں سے ایک ہے روزنامہ معراج ہے جو قبل ازیں ماہنامہ معراج انٹرنیشنل (میگزین) کا نام سے شائع ہوتا رہا،جس کے مالک نثار صائم نے آج سے بیس سال پہلے یہ پودا لگایا جو اب تن آور درخت بن چکا ہے ۔
روزنامہ” معراج ”کی 18ویں سالگرہ چند روز قبل راولپنڈی پریس کلب میں منائی گئی۔ کشمیر جرنلسٹس فورم کی افطار پارٹی کے موقعہ پر اخبار کی سالگرہ کیک کاٹاگیا ۔ یہ چھوٹی مگر پر رونق تقریب تھی جس میں کے جے ایف کے منتخب باڈی اور آزادکشمیر کے سیںنئر صحافیوں سمیت دیگر دوستوں نے شرکت کی اور نثار صائم کا اس مشکل مگر کامیاب سفر پر مبارک باد دی ہے۔
نثار صائم سے میرا پرانا تعلق ہے ۔تب میں صحافت کی الف ب سیکھ رہا تھا جب نثار صائم سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ انتہائی نرم مزاج اور دیمے لہجے کے مالک کوٹلی کشمیر کے اس نوجوان سے مل کر ایسا لگا جیسا کوئی بچھڑا بھائی ہو ۔۔ ہماری دوستی آگے چلتی رہی اس دوران وہ اکثر بغل میں فائلیں لیکر پیدل سفر کرتے تھے۔ تب ایک اور صحافی دوست حنیف تبسم بھی ہمارے کارواں کا ساتھی ہوا کرتے تھے ۔
نثار صائم اپنا ماہنامہ(میگزین) مشکل مگر انتہائی پروفیشنل انداز میں چلا رہے تھے ۔ کئی بار جیب خالی ہوتی تھی لیکن اس مرد آہن نے ہمت نہیں ہاری ۔ حوصلہ قائم اور سفری جاری رکھا ۔ بعد میں خوشحالی کے دن بھی ان کی قسمت میں آئے۔ لیکن بدقسمتی سے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے باعث اخباری صنعت زوال پذیر ہونے لگی یوں اچھے بھلے اخباری مالک وقت کی پہیہ تلے کچلے گئے ۔کئی لوگوں نے دفاتر کو تالے چڑھا دیئے ۔ کسی نے اسٹاف کو گھر بھیج دیا اور کوئی ڈیجیٹل پر ہی اکتفا کرنے لگا لیکن نثار صائم تن دہی اور محنت سے اپنے اخبار کی آبیاری میں مصروف رہے ۔
”معراج” اگر چہ بڑا سرمایہ نہ ہونے کے باعث مین اسٹریم میڈیا کا مقابلہ نہ کرسکا لیکن آزاد کشمیر میں ان کی اچھی شہرت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ نثار صائم اور ان کی ٹیم کا پروفیشنل اپروچ ہے جو قارئین کو شروع دن ہی بھا گیا تھا ۔ فیک نیوز اور مس انفارمیشن کے اس دور میں جہاں خبر کہیں گھم ہو کر رہتی ہے اور خبر کا کہیں کوئی سر یا دم ہی مل جاتی ہے ، اس دور میں بھیروزنامہ” معراج” نے اپنا معراج نہیں کھویا ہے بلکہ آج بھی اس کے قارئین اس اخبار پر پورا اعتماد کرتے ہیں ۔ نثار کا یہ ”معراج” اب جوان ہوچکا ہے۔
اب بے شک ڈیجیٹل دور ہو یا کوئی اور ۔۔۔ اس نے اپنا سفر جوں کا توں جاری رکھنا ہے لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ جو لوگ وقت کے ساتھ چلتے ہیں وہی کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اب چونکہ ڈیجیٹل دور ہے اور لوگ ٹی وی دیکھنے یا اخبار پڑھنے سے زیادہ ترجیح موبائل کو دیتے ہیں لہذا” معراج” سمیت دیگر اخبارات کو بھی اپنا موڈ تبدیل کرنا ہوگا ۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارم شاید زیادہ موثر ہوسکتا ہے اس لیے جتنے بھی اخبارات ہیں ان کے مالکان اور انتظامیہ کو اس بات ادارک کرنا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم قدم ہوسکیں گے بلکہ جن لوگوں کا روزگار ان اداروں کی وجہ سے چل رہا ہے وہ بھی برقرار رہ سکے ۔۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ نثاراحمد صائم اور ان کی ٹیم کو مزید کامیابی عطا فرمائے ۔۔ آمین ۔۔