
تحریر:۔ تنویرالاسلام ، سابق چیئرمین متحدہ جہادکونسل جموں وکشمیر
جنوبی ایشیا کی تاریخ میں بہت کم ایسے لمحات آئے ہیں جب وقت کی پکار اتنی واضح، بلند اور غیر مبہم ہو۔جب ہر باشعور انسان نہ صرف اس کی گونج سن سکے، بلکہ اس کی شدت کو اپنی روح کی گہرائیوں تک محسوس کرے، آج کی صدا ہر حساس دل کو بے چینی، اضطراب اور فکر کے بھنور میں ڈال چکی ہے۔ آج ہم ایسے ہی ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں، جو نہ صرف دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کا تقاضا کرتا ہے، بلکہ پورے خطے کے عوام، بالخصوص لاکھوں مظلوم اور متاثرہ انسانوں کے دکھوں کا احساس کرتے ہوئے، انہیں ایک باعزت، محفوظ اور پُرامن مستقبل فراہم کرنے کی مشترکہ ذمہ داری بھی ہم پر عائد کرتا ہے۔ یہ لمحہ صرف دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کی امید ہی نہیں بلکہ خطے کے اربوں انسانوں کے محفوظ، باوقار اور پُرامن مستقبل کی صدا ہے۔
یہ صدا کسی ایک قوم، سرحد یا مفاد کی نمائندہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے اجتماعی ضمیر کی پکار ہے — ایک ایسی پکار جو ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ اب مزید تاخیر، خاموشی، یا بے حسی کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم صرف سیاسی بیانات، جنگی تیاریوں یا سفارتی تجزیوں تک محدود نہ رہیں، بلکہ انسانی تکالیف، کروڑوں متاثرہ زندگیوں اور مظلوم آوازوں کو مرکزِ توجہ بنائیں —وہ آوازیں جو مسلسل جبر، محرومی اور بے یقینی کا شکار ہیں، اور جن کے زخم نہ صرف ایک قوم بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر پر سوالیہ نشان ہیں۔
کشمیری عوام کے لیے افغان دورِ حکومت سے ڈوگرہ شاہی تک کے ادوارظلم و استحصال کا زمانہ تھے، جن میں ان کی سیاسی، معاشی اور مذہبی آزادی کو سلب کر لیا گیا۔ ان ادوار میں کشمیری شدید جبر، غلامی اور بنیادی حقوق کی پامالی کا شکار رہے، جس کی گواہی متعدد غیر جانب دار تاریخی تجزیے اورمغربی مصنفین کی شہادتیں دیتی ہیں۔ یہ ادوار نہ صرف مسئلہ کشمیر کی تاریخ کے تاریک ابواب ہیں بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا کھلا ثبوت بھی ہیں۔
خطہ کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے ایک ایسے پیچیدہ اور گہرے تنازع کا شکار ہے جس کی بنیاد صرف سرحدی اختلافات یا سیاسی دعووں پر نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط محرومیوں، بنیادی انسانی حقوق کی مسلسل پامالی، حقِ خود ارادیت سے انکار، جھوٹے وعدوں پر مبنی رائے شماری، زخم خوردہ شناخت، مسلسل بے یقینی اور عالمی برادری کی خاموشی سے جڑی ہوئی ہے۔ مسئلہ کشمیر تاریخ کے اُن خاموش اور نظرانداز صفحات میں چھپا ایک ایسا المیہ ہے، جسے نہ کوئی مکمل لکھ سکا اور نہ ہی پوری طرح سمجھ پایا۔
یہ مسئلہ محض ایک متنازع جغرافیہ کا تنازع نہیں، بلکہ لاکھوں بے بس انسانوں کی اذیت ناک زندگیوں کا سوال ہے۔ وہ انسان جو ریاستی جبر، عسکری تصادم، سیاسی ناامیدی، غربت، اور مسلسل تشدد کے سائے تلے سانس لینے پر مجبور ہیں اور جو صرف امن، انصاف اور باوقار زندگی کے متلاشی ہیں۔ آج نہ صرف کشمیری، بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے دو ارب سے زائد لوگ بالخصوص بھارت اور پاکستان کے ایک ارب ستر کروڑ عوام، ایک پُرامن، ترقی یافتہ اور انسانی وقار پر مبنی مستقبل کی خواہش اور اُمید رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نفرت، تعصب اور دشمنی کی بجائے مکالمے، مفاہمت اور باہمی احترام کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ایسے خطے میں جہاں پندرہ کروڑ سے زائد لوگ انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہوں، اور جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور بنیادی سہولتوں کی کمی روزمرہ کی تلخ حقیقت ہو وہاں جنگ نہیں، بلکہ سب سے زیادہ امن کی ضرورت ہے۔
جب امن کی بات کی جاتی ہے تو اسے اکثر صرف جنگ بندی، سفارتی بیانات یا سرحدی خاموشی اور سمجھوتوں تک محدود کر دیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقی اور پائیدار امن اُس وقت قائم ہوتا ہے جب دلوں سے خوف کا سایہ چھٹ جائے، مظلوم کو اس کا حق اور انصاف ملے، بچوں کو بے خوف ہو کر خواب دیکھنے کا حق حاصل ہو، ماں کو اپنے بیٹے کی سلامتی کا اطمینان ہو، اور ہر انسان کو عزت، وقار اور تحفظ کے ساتھ جینے کا ماحول میسر آئے۔ امن صرف ہتھیاروں کی خاموشی کا نام نہیں، بلکہ یہ ضمیر کی بیداری، حقوق کی فراہمی اور دلوں میں اترنے والے سکون و اطمینان کا نام ہے۔ امن کا مفہوم محض گولیوں کے تھم جانے تک محدود نہیں، بلکہ وہ فضا ہے جہاں اعتماد، مکالمہ اور باہمی احترام سانس لیتے ہیں۔
امن ایک عمل ہے، ایک مسلسل جدوجہد جس کا مقصد صرف خاموشی نہیں، بلکہ معاشروں میں ہم آہنگی، انصاف، اور انسانی عظمت کا فروغ ہے۔ انصاف کسی رعایت یا احسان کا نام نہیں، بلکہ ہر انسان کا بنیادی اور ناقابلِ انکار حق ہے۔ سچا انصاف وہی ہے جو دبے ہوئے سچ کو تسلیم کرے، جس کی بنیاد طاقت پر نہیں بلکہ حق اور اصول پر ہو اور جو صرف مکالمہ اور مفاہمت سے ہی ممکن ہے۔
مفاہمت محض مذاکرات کی میز پر طے پانے والا کوئی معاہدہ نہیں، بلکہ ایک طرزِ احساس ہے ایسا پُل جو ماضی کے زخموں سے گزر کر مستقبل کی روشنی تک لے جاسکتا ہے۔ مگر یہ پُل تبھی مضبوط ہو سکتا ہے جب اس کی بنیادیں عوامی اعتماد، باہمی احترام اور مشترکہ فلاح پر استوار ہوں۔ مفاہمت اسی وقت معتبر اور پائیدار بن سکتی ہے جب میڈیا منفی بیانیے کے بجائے امن، ہم آہنگی اور باہمی احترام کا علم بلند کرے؛ جب تعلیم، ثقافت، اور عوامی روابط کے تبادلے دوریوں کو مٹائیں اور جب دونوں جانب کے لوگ ایک دوسرے کو دشمن نہیں بلکہ انسان، ہمسایہ اور ممکنہ ساتھی کے طور پر دیکھنے لگیں۔
موجودہ عالمی تناظر میں، جہاں غربت، ماحولیاتی بحران اور بڑھتی ہوئی بے چینی اپنی شدت اختیار کر رہی ہے، ہمیں یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے انسانی پہلو کو ہرگز نظرانداز نہ کیا جائے، بلکہ ان مسائل کو اولین ترجیح دی جائے۔ مفاہمت کو صرف ایوانوں تک محدود رکھنے کے بجائے، اسے اُن گلیوں اور بستیوں تک پہنچانا ہوگا جہاں غربت، بے روزگاری اور انسانی المیے نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اور جہاں معصوم زندگیاں دہائیوں سے قربانی کا ایندھن بنی ہوئی ہیں۔
ہمیں اس بات کو جھٹلانا نہیں چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بھارت اور پاکستان ہمیشہ کدورت، جنگوں، اور سیاسی کشمکش کا شکار رہے ہیں۔ اس دیرینہ تنازع کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو اس مسئلے کے مرکز میں ہونا چاہیے تھا، وہی سب سے زیادہ نظرانداز کیے گئے۔ ان کی شناخت، رائے، جمہوری آزادی اور عزتِ نفس کو مسلسل پامال کیا گیاگویا کہ ان کے وجود کو ہی غیر اہم سمجھ لیا گیا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ دونوں ممالک اپنی سیاسی انا سے بلند ہو کر اپنے عوام کے مجموعی مفادات اور کشمیریوں کے زخموں کو محسوس کریں، جو اس تنازعے کے اصل اور سب سے زیادہ متاثرین ہیں۔وہ مائیں، وہ نوجوان، وہ معصوم زندگیاں جو روزانہ ناانصافی، خوف، اور غیر یقینی کے سائے میں سانس لے رہی ہیں۔ انہیں انصاف ملنا چاہیے۔
مظلوم کشمیریوں کا بے زبان لہو کسی تمغے یا رعایت کا سبب نہ بن سکا، بلکہ خاموشی سے بہتا رہا، اجنبی آنکھوں کے سامنے، بے نشان، بے صدا۔ یہی بے نام و بے نشان خون آج بھی ہم سے مخاطب ہے۔سوال بن کر،فریاد بن کراورضمیر کی دستک بن کر۔یہ ایک تلخ مگر ناقابلِ انکار سچ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کا اصل بوجھ وہ طبقات اٹھا رہے ہیں جو پہلے ہی غربت، بے روزگاری، بنیادی سہولتوں سے محروم اورمظالم کا شکار ہیں۔وہ انسان جو نہ جنگ چاہتے ہیں، نہ نفرت — ان کی صرف یہی خواہش ہے کہ انہیں امن، روزگار، عزت اور بہتر مستقبل نصیب ہو۔
فیصلہ اب قیادت کے ہاتھ میں ہے: کیا وہ تاریخ میں ضد، تعصب اور دشمنی کی علامت بننا چاہتے ہیں یا اس خطے کے روشن مستقبل کے لیے بصیرت، جرات اور انسان دوستی کا مظاہرہ کریں گے؟ کیا وہ صرف تاریخ کا تماشائی بنیں گے یا امن اور مفاہمت کے سفر میں رہنما کا کردار ادا کریں گے؟ یہ وقت ایک کڑی آزمائش بھی ہے اور ایک نادر موقع بھی — اگر جنوبی ایشیا کی قیادت نے اس لمحے کو جرات، دانائی اور ہمدردی سے نبھایا تو آنے والی نسلیں گواہ ہوں گی کہ اس خطے نے نفرت نہیں، بلکہ انسانیت کی تاریخ رقم کی۔