
In this picture taken on July 16, 2019, a municipal worker carries a bag of recycling items at a site in Islamabad. - From the once pristine rivers of Hindu Kush to the slums of Islamabad, Pakistan is being smothered by plastic due to a lack of public awareness, government inertia, and poor waste management. (Photo by AAMIR QURESHI / AFP) / TO GO WITH Pakistan-environment-plastic,FEATURE by Joris Fioriti

"جو پلاسٹک آپ سوچے سمجھے بغیر استعمال کررہے ہیں، یقین رکھیں اس کی آلودگی کسی نہ کسی طریقے سے واپس آپکے کھانے کے پلیٹ سے ہوتی ہوئی آپ کے جسم کے اندر داخل ہو گی ، پلاسٹک آبی حیات سے انسانی جسم کے اندر ایک فوڈ چین کے ذریعے منتقل ہورہی ہے جب سمندری حیات خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں تو پلاسٹک کی خوشبو کو سونگھ کر خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش میں انکی موت واقع ہو جاتی ہے۔ پلاسٹک سے نہ صرف انسان متاثر ہورہے ہیں، بلکہ سمندری حیات جن میں کچھوے ، مچھلیاں ، جھینگے آبی پرندے اور دیگر آبی حیات بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
بلوچستان کے ساحل پر کچرے اور استعمال شدہ پلاسٹک کی جالوں کی وجہ سے آبی حیات اب شدید خطرات سے دوبار ہیں۔ پہلے یہ ساحل صاف اور خوبصورت ہوتا تھا، بدقسمتی سے اب یہاں ہر طرف کچرا پڑا ہوتا ہے، اسی ساحلی پٹی پر مچحیروں کاروزگار وابستہ ہے اوروی خود اسکی صاف ستھرائی پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ پلاسٹک کی آلودگی کے انسانی صحت پر مضر اثرات پلاسٹک کی آلودگی نہ صرف قدرتی نظام کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ معیشت اور انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔بہت سے مطالعات میں مائیکرو پلاسٹکس اور یہاں تک کہ نینو پلاسٹک کے ذرات اور انسانی صحت پر ان کے اثرات کے درمیان روابط پائے گئے ہیں۔نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق خون کی نالیوں میں ان مالیکیولز کے جمع ہونے اور کچھ لوگوں میں ہارٹ اٹیک، فالج اور یہاں تک کہ موت کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔سائنسی جریدے ”جانا نیٹ ورک اوپن “میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ جرمنی اور برازیل میں مرنیوالے 15 میں سے 8 بالغ افراد کے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے برین آل فیکٹری بلب ( دماغ کے سونگھنے میں مدد دینے والے حصے) میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی پائی گئی۔ان ذرات کا سائز 5.5 مائیکرون سے 26.4 مائیکرون تک تھا۔یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسان ہر گھنٹے سانس کے ذریعے 16.2بٹس مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں۔ مزید اعداد و شمار سے یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ انسان ایک ہفتے میں 2721.6 بٹس مائیکرو پلاسٹک نگل رہے ہیں، جو ایک کریڈٹ کارڈ میں پلاسٹک کی مقدار کے برابر ہے۔
بلوچستان کے ساحلوں پر پلاسٹک کے ڈھیر
بلوچستان کے اکثر ساحلی علاقوں میں ساحلی پٹی پر پلاسٹک کے تھیلے اور استعمال شدہ جالوں کے ٹکرے بکھرے پڑے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے نہ صرف آبی حیات ان جالوں کے شکنجے میں آکر مر رہی ہیں بلکہ انسانی صحت پر اسکے منفی اثرات پڑ رہے ہیں، کیونکہ ساحلی علاقوں میں رہائش پذیر لوگ مچھلیاں ، جھینگے اور دیگر سمندری مخلوقات کو بطور غذا کھاتے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف(WWF) کی ایک تحقیق کے مطابق گوادر اور کنڈ ملیر کے ساحل پلاسٹک سے بھرے پڑے ہیں، جو ساحلی اور سمندری پانیوں کے ساتھ سمندری زندگی کو منفی طور پر متاثر کررہے ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی سطح پر 3 میں سے ایک ممالیہ پلاسٹک کے کوڑے سے متاثر ہوا ہے، اسی طرح نوے فیصد سمندری پرندے بھی متاثر ہوئے ہیں،کیونکہ سمندری مخلوقات اور آبی پرندے مائیکرو پلاسٹک کھاتے ہیں یا پلاسٹک کے ملبے میں الجھ جاتے ہیں۔ اہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے بیگز 500سے ایک ہزار سال تک حل پذیر نہیں ہوتے اور جب یہ زمین کے اندر ڈمپ ہوتی ہے تو زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک سے بنائے گئے مواد سورج کی تپش اور نمی کی وجہ سے مائیکرو پلاسٹک میں تبدیل ہو جاتے ہیں، اور اس کے ذرات سمندر میں داخل ہوتے ہیں ۔سمندر کے کنارے جو مائیکرو انیمل( وہ سمندری جاندار جو صرف خوردبین پر دیکھے جاسکتے ہیں )ہیں،ان ذرات کی وجہ سے انکی موت ہوتی ہے اور سمندر کا پورا نظام اور ایکو سسٹم ان مائیکرو انیمل پر منحصر ہے۔ پرندے یا جانور جہاں خطرا بھانپ لیتے ہیں تو وہاں جانا چھوڑ دیتے ہیں سائبریا سے مختلف اقسام کے آبی پرندے جو کہ ماضی قریب میں بلوچستان کے ساحلی پٹی کو اپنی عارضی پناہ گاہ بناتے تھے اور ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ کی ساحلی پٹی پر مختلف اقسام کے آبی پرندوں کا غول ہی غول نظر آتا تھا مگر کئی سالوں سے آبی پرندے ان علاقوں کا رُخ نہیں کررہے ہیں۔پرندے چونکہ اُڑتے ہوئے شکار کو دبوچ لیتے ہیں، اور پرندے سمندر میں تیرتے ہوئے پلاسٹک کو شکار سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں جو انکے حلق میں پھنس جاتے ہیں یا اُلجھ جاتے ہیں ، اور انکی موت کا باعث بن جاتے ہیں۔مر جانیوالی مچھلیوں اور پرندوں کی موت کی وجہ جاننے کے لئے جب انکے پیٹ کو کاٹا گیا تھا تو اس میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے تھے۔بلوچستان کے ساحلی علاقوں”تاک بیچ اورماڑہ ،” دران بیچ جیوانی اور” اسٹولہ جزیرہ پسنی” جو کہ کچھوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں،اور یہاں سبز کچھوے افزائش نسل کرتے ہیں جبکہ ان علاقوں میں سیاحوں کی جانب سے سیر و تفریح میں آنے کے بعد استعمال شدہ
پلاسٹک بیگز اور ماہی گیروں کی جانب سے جالوں کے ٹکرے چھوڑے جاتے ہیں جو کہ کچھوؤں کی موت کا باعث بن رہے ہیں۔
کچھوے تیرتے ہوئے پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھا جاتے ہیں جو انکی معدے میں پھنس کر ہلاکت کا سبب بنتا ہے، جیلی فش چونکہ کچھوے کی مرغوب غذا ہوتا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف ) کے مطابق پاکستان میں سالانہ 25 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا ہوتا ہے، اس میں سے 16 کروڑ 30 لاکھ ٹن یعنی 65 فیصد ساحل سمندر تک پہنچتا ہے۔بین الاقوامی تنظیم کے مطابق سالانہ 11 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا دنیا کے سمندروں اور آبی گذرگاہوں میں گرتا ہے، اگر اسی مقدار میں پلاسٹک ہمارے سمندروں میں جاتا رہا تو 2050 تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہوگا۔برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں کچرا پیدا کرنے والے آٹھ ممالک میں شامل ہے، بلوچستان کے ساحلی علاقوں سمیت عالمی سطح پر پلاسٹک کی آلودگی سمندری ماحولیاتی نظام میں خلل ڈال رہی ہے۔ یہ سمندری حیات اور رہائش گاہ میں خلل ڈالتی ہے۔ گرمی اور سورج کی تپش سے یہ مائیکرو پلاسٹک میں تبدیل ہوتا ہے جو نہ صرف سمندری مخلوقات بلکہ انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔ ماہی گیری اور سیاحت پر منحصر معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے اور نکاسی آب کے نظام میں فضلہ کی رکاوٹوں کی وجہ سے سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی صرف گوادر کے ساحلی علاقوں کا مسلئہ نہیں بلکہ بلوچستان کے مختلف ساحلی خطوں کے حالات گوادر جیسے ہیں ، پلاسٹک کی آلودگی کی وجہ سے نہ صرف ان ساحلی علاقوں کا قدرتی حسن متاثر ہورہا ہے بلکہ اس سے آبی حیات ، انسانی صحت اور مقامی معیشت پر منفی اثر پڑ رہے ہیں، سمندر میں پھینکے گئے پلاسٹک اور اس سے بنی مصنوعات کی وجہ سے کچھوے ، مچھلیاں اور دیگر آبی حیات موت کے شکنجے میں جارہے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک کا آبی حیات میں پایا جانا انسانی صحت کے لئے خطرے کی علامت ہے کیونکہ ساحلی علاقوں میں رہائش پذیر لوگ مچھلیوں اور دیگر سمندری مخلوقات کو بطور خوراک کھاتے ہیں۔
پلاسٹک بنانے والے کمپنیوں پر بھاری ٹیکسز نافذ کرنے کی ضرورت ہے،جب تک وہ پلاسٹک مصنوعات کی جگہ ماحول دوست بیگز نہ بنائیں۔ کیونکہ پلاسٹک بیگز سمندری حیات، پانی کے قدرتی راستوں اور انسانی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ ون ٹائم یوز پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی نافذ کرکے ماحول دوست تھیلوں کو مارکیٹ تک لایا جائے۔ پلاسٹک کی آلودگی کے حوالے سے لوگوں میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے ساتھ سکولوں کے نصاب میں بھی انکے نقصانات کے حوالے مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب بچوں کو بچپن سے اسکے نقصانات معلوم ہوں گے تو مستقل میں پلاسٹک کے روک تھام کے لیے وہ اپنے کردار کریں گے۔ تحفظ ماحولیات کی جانب سے بنای گی پالیسیوں پر سختی سے اور من و عن عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ یہ ایک فرد یا سرکار کا نہیں بلکہ معاشرے کے تمام افراد کا مسئلہ ہے۔غیر سرکاری اداروں کے ساتھ تعاون، نوجوانوں کو ماحولیاتی اقدامات میں شامل کرنا اور بہتر ری سائیکلنگ انفراسٹرکچر کو نافذ کرنا بھی پلاسٹک کے فضلے کو کم کرسکتا ہے، جس سے ماحولیات اور مقامی لوگوں دونوں کو فائدہ مل سکتا ہے۔