
عید الاضحی کے لیے وفاقی دارلحکومت کے اطراف پانچ مقامات پر مویشی منڈیاں لگائی گئیں ۔ مویشی منڈیاں لگائی جا رہی ہیں،سنگجانی، سیکٹرآئی 15 ، بارہ کہو ، لہتراڑ روڈ اور ایکسپریس وے پر جگہیں مقرر کی گئ ہیں۔مقرر کردہ جگہوں کے علاوہ جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی عائِد کی گئی ہے ۔
ابھی عید میں تھوڑا وقت ہے اس لیے منڈیوں میں وہ گہما گہمی نظر نہیں آ رہی ۔اس کی کئی وجوہات ہیں ۔کچھ خریداروں کی سوچ یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا ریٹ گرے گا۔اس سے بھی بڑا مسلہ شہروں میں جگہ کی کمی ہے ۔کیونکہ وہ پرانے صحن ختم ہو گئے اور جانور کو باندھنے کے لیے اچھی خاصی جگہ درکار ہوتی ہے ۔اس لیے زیادہ تر قربانی کرنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ عید کی رات کو ہی جانور خریدا جائے ۔
جانور اتنے مہنگے کیوں؟
ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک ٹرم کا استعمال کیا جا رہا ہے "منڈی تیز ہے”لیکن منڈی تیز کیوں ہے۔جانوروں کی قیمتیں اتنی بڑھ کیوں گئیں ۔اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی آبادی کے تناسب سے ہم نے لائیو سٹاک پر کام نہیں کیا۔اگر کیا بھی تو بہت کم ۔دوسری جانب شہر بڑھتے اور گاوں سکڑتے جا رہے ہیں ۔جہاں آج سے دس برس پہلے ہر گھر میں گائے بکری بھنس باندھی نظر آتی تھی وہاں اب یہ "کلچر”کم ہو گیا۔جب ہر گھر میں جانور پالنے کا رواج ہوتا تھا تو وہ لوگ اپنی قربانی کے لیے تو جانور پال ہی لیتے تھے ایک کعد جانور بیچ بھی دیتے تھے۔جس سے قیمتیں کنٹرول میں تھیں ۔لیکن اب زیادہ تر فارمز بنائے جانے لگے ،یہ چیز "ڈومسٹک "سے "کمرشل "سطح پر چلی گئی ۔جس کے باعث قیمتوں میں بڑھاوا دیکھنے کو آ رہا ہے ۔
قوت خرید کیوں کم ہو رہی ہے ؟
پاکستان کی معاشی حالت کچھ عرصے سے ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔پروڈیکشن بزنس سکڑتے جا رہے ہیں اورپراپرٹی کا کام زیادہ۔ماہر معشیت دانوں کے مطابق پراپرٹی کا بزنس وقتی تو بہت "پرافٹ ایبل”ہے لیکن اسے ڈیڈ انوسٹمنٹ قرار دیا جاتا ہے ۔اس کاروبار سے مخصوص افراد کو فائدہ تو ہوتا ہے لیکن معاشرتی طور پر گروتھ رک جاتی ہے۔
بیوپاری اور خریدار کی خوہشات
بیووپاریوں کو اس لسٹ سے باہر نکالتے ہیں ،جانور پالنے والے جو پورا سال جانور پر محنت کرتے ہیں ،جگہ بھی اپنی ہو اورچارہ بھی خود اگائیں پھر بھی مثال کے طور پر چھوٹے جانور پر اگر ایک دن کا خرچہ 100روپے لگائیں تو ایک سال میں صرف یہ خرچہ 36ہزار 500روپے ہو گا ۔کیونکہ یہ خرچہ بالکل کم سے کم رکھا گیا ہے ۔پھر پالنے والے کی اپنی محنت اس کا حساب آپ خود لگا لیں ،پھر منڈی میں اگر لے کر جاتےہیں تو وہ انٹری فیس الگ لیتےہیں اور چارہ خرید کر ڈالیں تو وہ مزید مہنگا۔
لیکن دوسری طرف خریدار کی کوشش ہوتی ہے کہ اس دور میں بھی چالیس سے پچاس ہزار تک بکرہ خرید لوں ۔تو یہ کیسے ممکن ہو گا۔
منڈیوں کے اطراف چارہ مافیا
کیونکہ منڈی میں لائے گئے جانوروں کے لیے چارہ لازم و ملزوم ہے ،اس لیے چارہ بیچنے والوں کی بھی چاندی ہوتی ہے ۔جوچارہ 1500سے 2000 روپے من کے حساب سے عام دنوں فروخت ہوتا ہے ،وہی منڈی کے اطراف 500سے 600روپے من زیادہ یعنی 3000 سے 4000روپے من تک بیچا جاتا ہے ۔دوسری جانب منڈی کے علاوہ کہیں جانور بیچنے کی اجازت نہیں اس لیے منڈی کے ٹھیکے دار بھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں ،اور پہلے جو وعدے دعوے کرتےہیں کہ پانی مہیا کریں گے بجلی بھی دیں گے ایسا کچھ ہوتا نہیں ہے ۔اس لیے بیوپاری طبقہ زیادہ پستا ہے ۔