
کوٹلی ستیاں کے علاقے ملوٹ ستیاں، ڈھوک کیتھولہ میں ایک اور حوا کی بیٹی درندگی، ظلم اور جان لیوا تشدد کے نام پر بربریت کا نشانہ بن گئی۔
کوٹلی ستیاں کے علاقے ملوٹ ستیاں، ڈھوک کیتھولہ میں ایک اور حوا کی بیٹی درندگی، ظلم اور جان لیوا تشدد کے نام پر بربریت کا نشانہ بن گئی ۔۔۔

ایک مظلوم عورت، جو نہ صرف بیوی ہے بلکہ بچوں کی ماں بھی، اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں لہو لہو کر دی گئی۔ یہ کوئی فلمی کہانی نہیں، یہ سچ ہے… ہمارے آس پاس کا، ہمارے گاؤں، ہمارے ضلع کا، ہمارے پاکستان کا!
عثمان ولد عرفان، جو ڈھوک کیتھولہ کا رہائشی ہے، نے اپنی بیوی، دختر رشید اختر پر کلہاڑی سے حملہ کیا۔ یہ حملہ بچوں کی موجودگی میں کیا گیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، برسوں سے یہ عورت ظلم سہتی آئی ہے۔ بار بار مار کھاتی رہی، اور خاموشی کی چادر اوڑھتی رہی… لیکن اس بار حد ہو گئی۔
بھارتی پنجاب میں ٹک ٹاکر قتل ،قاتل سامنے آگیا، ایک اور لڑکی کو بھی مارنےکی دھکمیاں
جرم کیا تھا؟
یہ کہ اُس عورت نے اپنے "شوہر” کی بنائی گئی خلوت کے لمحات کی ویڈیو توڑ دی، جسے وہ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔
یہ کیسا "شوہر” ہے؟
جو بیوی کو طلاق کی دھمکی دیتا ہے اور ساتھ کہتا ہے: "اگر تم نے حق مانگا، یا بچوں کا سوال کیا، تو یہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر ڈال دوں گا۔”
کیا یہ نکاح ہے یا غلامی کا سرٹیفکیٹ؟
کیا یہ شوہر ہے یا شکاری؟
کیا عورت کا احترام بس تقریروں میں ہے؟ یا فقط ایوانوں میں؟
اسی عثمان نے چند سال قبل بھی اس خاتون کو ننگا کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، لیکن چونکہ وہ بااثر خاندان سے ہے، علاقے کے "معززین” نے صلح کروا دی۔ کیا یہ صلح تھی؟ یا عورت کی چیخوں پر مٹی ڈالنا؟
خاتون کے پانچ بہنیں ہیں، کوئی بھائی نہیں، والد بیمار اور بوڑھے… غربت، کمزوری اور بے بسی اُس کا جرم بن گئی۔ اور یہ سب جانتے ہوئے بھی عثمان جیسے درندے کو علاقے کے کچھ بااثر لوگ تحفظ دیتے رہے۔
سوال ریاست سے ہے، سوال معاشرے سے ہے، سوال ہم سب سے ہے!
محترمہ وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ!
آپ نے کہا تھا "خواتین ریڈ لائن ہیں”…
تو کیا ملوٹ ستیاں کی یہ بیٹی آپ کی ریڈ لائن نہیں؟
یا اُس کا جرم فقط یہ ہے کہ وہ کسی وڈیرے کی بیٹی نہیں، کسی ایم پی اے کی بھانجی نہیں، اور کسی کرسی والے کا تعلق دار نہیں؟
ہم حکومتِ پنجاب، محکمہ انسانی حقوق، ویمن پروٹیکشن بیورو، اور تمام سماجی و سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
1. ملزم عثمان کو فوری گرفتار کیا جائے اقدام قتل کی دفعات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی و خواتین پر تشدد کی دفعات کے تحت سخت ترین کارروائی کی جائے۔
انسانی سمگلنگ کے حوالے سے قومی اسمبلی میں خوفناک انکشافات
2. ان افراد کے خلاف کارروائی ہو جو بربریت کو تحفظ دے رہے ہیں۔
3. زخمی خاتون کو مکمل قانونی، مالی اور نفسیاتی تحفظ فراہم کیا جائے۔
4. اس کیس کو ایک مثال بنایا جائے تاکہ کوئی بھی شوہر آئندہ بیوی کو غلام نہ سمجھے۔
معاشرے کے نام اپیل
ہم سب بیٹیوں والے نہ سہی… ماں والے ضرور ہیں!
اگر ہم نے آج آواز نہ اٹھائی، تو کل ہمارے گھروں میں بھی سناٹا بولے گا۔
ظلم کے خلاف ایک لفظ بولنا انصاف کے سفر کی پہلی سیڑھی ہے۔
آئیے، ڈٹ جائیں ان ظالموں کے سامنے، اور حوا کی بیٹی کا ہاتھ تھام کر ثابت کریں کہ ابھی انسانیت زندہ ہے
تحریر برائے آگاہی و اقدام
یہ تحریر سوشل میڈیا، انسانی حقوق کے اداروں، خواتین کے تحفظ کے اداروں اور حکومت پنجاب تک پہنچانے کے لیے عوامی اواز ہے۔ ہر پڑھنے والا، شیئر کرنے والا، اسے اپنی آواز بنائے تاکہ مظلوم کو انصاف اور ظالم کو سزا مل سکے۔