
بات ہے اٹھارہ سو 92 کی ،جب سٹینفورڈ یونیورسٹی میں، ایک 18 سالہ طالب علم اپنی فیس ادا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ وہ ایک یتیم تھا، اور یہ نہیں جانتا تھا کہ پیسے کے لیے کہاں سے رجوع کرنا ہے، اسے ایک خیال آیا۔ اس نےاپنے دوست کے ساتھ ملکر فیس کے لیے رقم اکھٹی کرنے کا سوچا اور یونیورسٹی میں ایک میوزیکل کنسرٹ کی میزبانی کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ مشہور زمانہ پیانو بجانے والے اگنیسی جے پیڈریوسکی کے پاس پہنچے اور اس سے پیانو بجانے اور کنسرٹ میں آنے کو کہا ،آرٹسٹ نے پیانو بجانے کے لیے 2ہزار ڈالر فیس کا مطالبہ کیا۔
آخر کار وہ دن آ گیا انہوں نے کافی ٹکٹس بیچے لیکن پھر بھی 1600 ڈالر تک ہی پہنچ سکے،کنسرٹ ہوا اور وہ مایوس ہو کر اگنیسی جے پیڈریوسکی کے پاس پہنچے ۔انہوں نے 1600 نقد اور 400 ڈالر کا چیک پیش کیا لیکن آرٹسٹ نے چیک پھاڑ کر پھینک دیا۔پھر انہوں نے پیانو دان کو اپنی کہانی سنائی تو اگنیسی جے پیڈریوسکی کو شاید ترس آ گیا اس نے وہ رقم بھی ان دو لڑکوں کو واپس کر دی اور انہیں کہا کہ اپنی فیس کے اخراجات نکال کر جو پیسے بچیں مجھے دے دیں ۔
پیڈریوسکی بعد میں پولینڈ کے وزیر اعظم بن گئے۔ وہ اچھے رہنما بھی تھے لیکن بدقسمتی سے عالمی جنگ شروع ہوئی تو پولینڈ میں تباہی مچ گئی۔ اس کے ملک میں 1.5 ملین سے زیادہ لوگ بھوک سے مر رہے تھے، اور انہیں کھانا کھلانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔
پیڈریوسکی مدد کے لیے امریکی فوڈ اینڈ ریلیف ایڈمنسٹریشن تک پہنچا۔ اس نے سنا کہ وہاں ایک شخص ہے جسے ہربرٹ ہوور کہتے ہیں – جو بعد میں امریکی صدر بن گیا۔ ہوور نے مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور بھوک سے مرتے پولش لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے فوری طور پر اناج بھیج دیا۔ اور اس طرح پولش لوگ بھوک سے مرنے سے بچ گئے۔
اس نے ہوور سے ملنے اور ذاتی طور پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اس پار جانے کا فیصلہ کیا۔ جب پیڈریوسکی نے ہوور کا شکریہ ادا کرنا شروع کیا تو ہوور نے کہا مسٹر پرائم منسٹر۔ آپ کو شاید یہ یاد نہ ہو، لیکن کئی سال پہلے، آپ نے دو نوجوان طالب علموں کو کالج کی فیس بھرنے کے لیے مدد کی تھی ۔
دنیا میں ہر چیز فانی ہے بس اتنا سوچ کر دوسروں کی مدد کریں کہ وہ بھی کسی کا بھلا کریں گے اور یہ دنیا ہی ہمارے لیےجنت بن جائے گی ۔