آو بائیکاٹ کریں/یہودی ایجنٹ پاکستان میں۔

تحریر:ارسلان سدوزئی

0

تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کا اصول ہے کہ استعمال ہوتی ہے ،اور بے جا ہوتی ہے ،اور اکثر اوقات تاریخ کے اوراق اسے غلط استعمال،انسانی استحصال کے طور پر ہی دیکھتی ہے ،آجکل بھی دنیا میں اسرائیل کے مظالم کی داستان زبان زد عام ہے لیکن اس کے محرکات کیا ہیں تاریخ کیا کہتی ہے ،لیکن اس سے قطع نظر یہ بات واضع ہے کہ اہل یہود نے اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط کیا اور پھر اس طاقت نے کہیں نہ کہیں استعمال ہونا تھا۔تو وہ ہو رہی ہے اور ہم سب کے سامنے ہے ۔
بحثیت مسلمان اگر جذبات کو ہلکا ٹھنڈا کر کے سوچا جائے تو ہم بھی جب طاقت میں تھے ،معاشی طور پر مضبوط تھے تو دنیا کو ناکوں چنے چبوائے،مسلمان مورخین نے تو ان ادوار کو سنہری حروف میں لکھنے اور دکھانے کی کوشش کی لیکن ایسا ہر گز نہیں ،طاقت کا بے جا استعمال مسلمان ادوار حکومت میں بھی ہوا اور زیادتیاں بھی ہوئیں ۔تو آج رونے دھونے سے بہتر ہے ہم تھوڑا سا سوچ لیں ،کہ ہمارے عروج کی سیڑھی کیسے کچھی اور زوال کی داستان شروع ہوئی ۔
ظلم خیر کہیں بھی ہو میں اس کے حق میں نہیں امن ہی اس دنیا کو جنت بنا سکتا ہے لیکن طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے صرف بائیکاٹ سے کام نہیں چلے گا،ہمیں بھی معاشی طور پر دنیا کے ساتھ ساتھ چلنا ہو گا ،اب بات کریں اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کی تو یقین کریں آپ چاہے جتنا مرضی بائیکاٹ کر لیں اسرائیل کو کچھ فرق نہیں پڑنا،بلکہ میکڈونلڈ ،کے ایف سی اور یونی لیور کی پراڈیکٹ کا بائیکاٹ ہونے سے ہمارے ساتھ کے ہی شہری بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوں گے۔

نعرے باز مولوی کیسے لوگوں کی ذہن سازی کرتےہیں
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
جب بھی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے جائیں ،یا کوئی بھی مذہبی اجتماع ہو ،آپ کو فلسطین کے مظلوموں کے لیے دعا اور اسرائیل کو اللہ تباہ کرے کی صدا سنائی دیتی ہے ،لیکن پھر بھی کام الٹا ہوتا جا رہا ہے ،دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ،مولوی ایک ایسا طبقہ پیدا کیا گیا یا ہو رہاہے ،جو لوگوں کی ذہن سازی میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔جیسے صرف دعا بد دعا پر سارا دارومدار،لیکن حقیقت بتانے سے ہمیشہ گریزاں ہوتا ہے ۔کہ ظلم کے خاتمے کے لیے معاشی ترقی ضروری ہے ،ہمیشہ بتایا گیا کہ مسلمان تو غریب تھے،اور اسلام نے غربت کو پسند کیا۔
ایسا ہر گز نہیں ،اسلام میں تجارت کو بہترین پیشہ قرار دیا گیا اور یہ بالکل غلط ہے کہ مسلمان غریب پیدا ہوئے اور غریب مر گئے ۔کیونکہ یہ طبقہ اشریفہ کا دلال ہے اس لیے ہمارے اوپر ہونے والے حکمرانوں کے مظالم پر یہ لوگ پہرہ دیتےہیں اور لوگوں کی غلط ذہن سازی کرتےہیں ۔
مسلمان کبھی غریب نہیں تھے،جذبہ ایمانی کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی بھی تھی ،دولت کی یکسان تقسیم بھی تھی تب ہی آدھی دنیا پر ہمارے حکمرانی قائم ہوئی تھی،ایسا نہیں تھا کہ کھانے کو کچھ نہیں تھا اور ہم جنگیں لڑ رہے تھے ۔دنیا میں اپنا نام پیدا کرنے کے لیے آج سے 14سو سال پہلے بھی معاشی ترقی کا ایک رول تھا اور آج بھی یہی اصول ہے ۔
اسرائیل میں یہود آباد کاری۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::
اسرائیل کے قیام کا ایک مقصد ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنانا تھا، پہلی عالمی جنگ میں اس حصے پر حکمرانی کرنے والی سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھالا،اس سرزمین پر اس وقت یہودی اقلیت اور عرب اکثریت کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے نسلی گروہ بھی آباد تھے۔ یہودیوں اور عربوں کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی جب عالمی برادری نے برطانیہ کو یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک ’قومی گھر‘ تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ کام 1917 کے بیلفور اعلامیے کے تحت ہوا، جو اُس وقت برطانیہ کے وزیرِ خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی یہودی برادری سے کیا تھا۔ 1920 کے بعداس علاقے میں یہود آباد کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ان میں سے بہت سے لوگ یورپ میں ظلم و ستم، خاص طور پر دوسری عالمی جنگ میں نازی ہولوکاسٹ سے جان بچا کر یہاں آ رہے تھے۔ سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا،لیکن اسے عربوں نے مسترد کر دیا۔اور اس پر صیح معنوں میں عمل نہ ہو سکا۔

غیر یقینی معاشی صورتحال کی سزا موت ہے
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

ہمیں جذبات اور تصورات کی دنیا سے نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں ایک بار پھر لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا،ورنہ صرف نعرے لگاتے رہیں گے اور دنیا میں جوتے کھاتے رہیں گے ۔دنیا میں بڑی قوموں کو شکست بھی ہوئی لیکن وہ واپس کیسے کھڑے ہوئے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.