پھٹے کپڑے۔۔۔۔مایوس چہرہ۔۔۔۔۔۔۔لیکن اپ نے ترس نہیں کھانا۔۔۔کیونکہ پچھلے ستر برسوں سے اگر آپ ترس کھاتے تو کیسے آپ کی بیرون ملک جائدادیں بنتیں ۔۔۔۔کیسے آپ کو بجلی کے بل معاف ہوتے۔۔۔۔کیسے آپ کو گاڑی کے لیے 300 لیٹر پٹرول فری ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل یہ لوگ ترس کے حقدار نہیں ۔ان کا قصور ہے ۔۔۔۔یہ یہاں سے بھاگے نہیں ۔۔۔۔انہیں پاکستان پیارا تھا۔۔۔۔ان کے والدین کی بھی غلطی ہے یہ لوگ یہاں پیدا ہوئے اور پھر بچوں کو بھی پاکستانیت پڑھاتے رہے ،ملک سے محبت کرنا سکھاتے رہے ۔۔۔۔ان کا قصور اس سے بڑھ کر ہے ۔۔۔۔۔۔ان کے سزا صرف پھٹے کپڑوں تک محدود نہیں ،ان کی روح تک چھلنی ہونی چاہیے ،لیکن شاید ہو بھی دکھائی نہ دیتی ہے ۔۔۔
جو اوپر بیٹھے ہیں وہ ظاہری زرق برق سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں ،ان کا تعلق باطنی دنیا سے ہے اس لیے بس کبھی غور نہیں کرتے ۔
اب کیا ہوا جو ہر پیدا ہونے والا بچہ اڑھائی لاکھ کا مقروض ہے ۔ہمیں کیا لگے ،ہمارا کون سا پاکستان میں کوئی سٹیک ہے ۔