
دی مائنڈ ۔۔۔ مائنڈ اٹ
ٹرک ڈرائیور اور شاگرد نے ہوٹل پر چائے پینے کے بعد دو تین سگرٹ سلگائیں اور اگلی منزل کیلئے ٹرک میں واپس بیٹھ گئے۔
استاد نے شاگرد سے کہا کہ تم بھی کیا یاد کرو گے کہ استاد نے کبھی ٹرک چلانے کیلئے دی ہی نہیں، چلو اب تم چلا لو، لیکن اس سے پہلے ٹرک کے ٹائر چیک کرو ۔
شاگرد نے کہا استاد باقی سب تو ٹھیک ہے بس ایک ٹائر پنچر ہے استاد نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ تبدل کرلو شاگرد نے خوشی خوشی ٹائر تبدیل کیا اور ٹرک سٹارٹ کیا ۔
استاد چونکہ تھکا ہوا تھا لہذا وہ پیچھلی سیٹ پر جاکے سو گیا،
کافی دیر بعد جب استاد کی آنکھ کھلی تو شاگرد سے پوچھا کہ ہاں بھئی کہاں پہنچ گئے ہیں ہم۔
شاگرد جو ڈرائیونگ کی خوشی میں مست تھا کہنے لگا کہ استاد یہ تو نہیں پتہ کہ اس وقت ہم کہاں ہے پر میں گاڑی کو دبا کر چلا رہا ہوں ۔
استاد نے کہا کہ گاڑی سائیڈ پر لگا دو تھوڑی چائے پی لیتے ہیں۔
شاگرد نے گاڑی سائیڈ پر لگا دی اور دونوں ٹرک سے اتر کر ایک ہوٹل میں چائے پینے کیلئے بیٹھ گئے۔
استاد نے ہوٹل والے سے پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے ہوٹل والے نے کہا کہ استاد پچھلے 2 گھنٹوں سے آپ کھڑی ہوئی گاڑی کو ایکسیلیٹر دے رہے ہیں ہم سمجھے کہ شاید آپ کے ٹرک میں کوئی مسئلہ ہے۔ دھوئیں کی وجہ سے ہمارا پورا سالن خراب ہوگیا ہے ۔ یہ وہی ہوٹل ہے جہاں آپ نے چائے اور سگریٹ پی تھی۔
استاد نے شاگرد کہا کہ گدھے انسان جب تم نے ٹائر تبدیل کر لیا تو گاڑی کے نیچے سے جیک نکالنا کیوں بھول گئے۔
پچھلے 75 سالوں سے کرسی کے نشے میں مست ہمارے حکمران ہمیں یہی کہہ کر حکومت چلا رہے ہیں کہ ملک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے حالانکہ جیک لگے ٹرک کی طرح ملک اج بھی وہی کھڑا ھے اور پھر ہمیشہ یہی آواز سننے کو ملی ۔ ملک نازک موڑ میں کھڑا ہے۔