
مظفرآباد،،،رپورٹ۔۔۔ عدنان احمد عباسی
تھکا دینے والے پہاڑی راستے پر سفر کرنے کے بعد جب ہم منزل کے قریب پہنچنے لگے تو ایک خوبصورت شور جیسے ہمارا استقبال کرنے کیلئے متحرک ہوگیا ۔ اونچے پہاڑ اورپتھریلے راستے پر یہ شور میٹھے سر اور سنگیت جیسا محسوس ہوتا ہے۔ سفر کی ساری تھکاوٹ یک دم اس وقت اتر گئی جب ہم چھم واٹر فال کے قریب پہنچے اور قدرت کا وہ نظارہ سامنے دیکھا جس کا مصروف شہروں میں تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
چھم یا چھمب آبشار آزاد کشمیر کی ایک خوبصورت آبشار ہے، جس کی مثال پورے پاکستان میں نہیں ملتی۔
یہ ضلع جہلم کے علاقہ چھمب میں واقع ہے۔ اسے آبشاروں کی دیوی بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ کشمیر کا سب سے بڑا واٹر فال بھی ہے۔
یہاں ہر سال ہزاروں سیاح اس کی جھلک دیکھنے اور ٹھنڈک محسوس کرنے کیلئے رخ کرتے ہیں ۔
یہ آبشار آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد شہر سے قریبا 65 کلومیٹر دور ہے ۔مظفر آباد سے چھمب آبشار دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
مظفرآباد سے چناری تک کا سفر 48 کلومیٹر محیط ہے ، یہاں تک پختہ سڑک ہے اور سفر کرتے ہوئے موٹر وے کا گماں ہوتا ہے ۔ سیدھے ہاتھ پر پہاڑ اور آبادی ہیں۔ جبکہ الٹے ہاتھ پر دریائے جہلم آپ کی مخالف سمت رواں دواں ہے ۔
چناری پہنچ کر بائیں جانب مڑیں تو کٹھائی پڑتا ہے۔ دوران سفر کٹھائی، باغی ناڑ، ٹلہ ڈوری، گڑمنڈہ شریف، چکہامہ قابل دید مقامات ہیں۔
چکہامہ کے مقام سے دو سڑکیں نکلتی ہیں، ایک کھاتر بانڈی اور ایک پانڈو سیکٹر جاتی ہے۔ کھاتر بانڈی جیسے خوبصورت گاؤں کی سیر کرتے ہوئے آپ چھمب آبشار تک پہنچ جاتے ہیں۔

مظفرآباد سے چناری تک 48 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کیلئے ایک کشادہ اور پختہ سڑک موجود ہے یعنی سرینگرمظفرآباد روڈ۔ چناری سے چکہامہ 10 کلومیٹر درمیانی کچی روڈ ہے۔ جبکہ چکہامہ سے چھم تک آف روڈنگ ٹریک ہے۔ ایک بائیک پر دو سوار بآسانی پہنچ سکتے ہیں۔ تاہم کار میں آنے والے سیاح حضرات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ آبشار کشمیر کا ایک چھوٹا سا پوشیدہ جوہر ہے۔ کوہالہ پل سے چناری تک سڑک کے سفر کا اگلا مرحلہ ہموار ہے۔
چناری سے چمب آبشار تک سڑک کچی سڑک ہے اور لگژری کاروں کے لیے موزوں نہیں ہے لہذا اپنی کار کو چناری سے آگے لے جانے کی کوشش نہ کریں۔ مقامی ڈاٹسن کو چمب تک پہنچنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ راستے میں جب آپ اونچائی حاصل کریں گے تو آپ کو چنار کی طرف واپس کچھ حیرت انگیز نظارے ملیں گے۔
چمب گاؤں ایل او سی کے بالکل قریب ہے اس لیے وہاں ایک فوجی بستی بھی ہے اور شہری لباس میں بھی لوگ آپ سے اس علاقے میں آنے کا مقصد پوچھ سکتے ہیں۔
بصورت دیگر آبشار گاؤں سے پہلے آتی ہے لہذا آپ آبشار کے نیچے جائیں اور کچھ مزہ کریں لیکن براہ کرم وہاں کوئی کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں۔
یہاں بیٹھ کر آپ قدرت کے اس نظارے سے لطف اندوز ہوں گے ۔ یہاں سردی کا احساس کم ہی ہوتا ہے لیکن سفر کے بعد گرتے پانی سے اٹھنے والی ٹھنڈک سے پورے بدن کی مالش ہوجاتی ہے ۔