
تحریر۔۔ مقصود منتظر

خبردار۔۔ ہوشیار۔۔ آگیا زبان بندی کا وہ تالا جسے کل تک موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کالا قانون قرار دے رہی تھی اوراس وقت کی برسر اقتدار جماعت حکمران اور آج کی اپوزیشن تحریک انصاف اسے زبان بندی کا اقدام قرار دے رہی ہے۔
بیس مئی بروز پیر کو حکومت پنجاب نے ہتک عزت قانون اسمبلی سے منظور کروالیا۔ بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پرہوگا جس کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اورغیرحقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔ بل کا یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا۔
کسی شخص کی ذاتی زندگی اورعوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔ 30 لاکھ روپے کا ہرجانہ بھی ہوگا، آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام کی صورت میں ہائیکورٹ کیس سننے کے مجاز ہوں گی۔ ہتک عزت کے کیسز کیلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔
مختلف چینلز کے مطابق مریم سرکار نے یہ بل جلدی میں پاس منظورکروالیا۔ اپوزیشن کی جانب سے بل سے متعلق دس سے زائد ترامیم کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ جس کے بعد اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قراردیکر ایوان میں اس کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں ۔ اور تو اور حکومت نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے بل موخر کرنے کی تجویزکا بھی کوئی مان نہیں رکھا۔ یوں چٹ منگی پٹ شادی ہوگئی۔
قارئین ، کل کی بات ہے آپ کو یاد ہوگا تحریک انصاف کے دور میں بھی میڈیا کی زبان بندی سے متعلق پیکا سمیت کئی آرڈیننس لائے گئےجن کیخلاف نہ صرف صحافی تنظیموں بلکہ اس وقت کی گرینڈ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم سراپا احتجاج بنی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں طرح طرح کےاحتجاج کیے۔ سڑکوں پر بھی احتجاجی میلے سجائے اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز خود ان مظاہروں ، احتجاج اور پریس کانفرنسز کو لیڈ کررہے تھے ۔ پریس کانفرنس اور احتجاج ختم ہوتے ہی یہ لوگ ٹاک شوز میں فیک نیوز یا ڈس انفارمیشن سے متعلق آرڈینسسز کیخلاف گرجتے برستے تھے۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب دن میں کم سے تین چار بار سکرینز پر آتی تھیں اور اس وقت کی حکومت کے اقدامات پر شدید تنقید کرتے ہوئے ایسے آرڈینسز کو کالے قوانین قرار دیتی تھیں ۔
ابھی کل ہی بات ہے۔ یقین نہیں آتا تو گوکل یا یوٹیوب پر سرچ کریں تو سینکڑوں پریس کانفرنس ، ہزاروں بیانات اور درجنوں احتجاج ملیں گے جو زبان بندی سے متعلق قوانیں کیخلاف کیے گئے ۔
مزے کی بات ہے کہ اس وقت کی حکمران جماعت بشمول اس وقت کے وزیراعظم جو اب اڈیالہ میں ہے ، ان اقدامات کو جائز اور حلال قرار دے رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے رہنمایعنی اس وقت کے وزیر و مشیر حکومتی اقدامات کے دفاع میں ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس داگتے تھے۔ شام کو سرکس اس وقت شروع ہوتا تھا جب مختلف ٹاک شوز میں پی ٹی آئی اپنے اقدامات کو حلال اور مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، جے یو ایف سمیت دیگر جماعتیں پیکا جیسے قوانین کو لاقانونیت ،فسطائیت اور پتہ نہیں کیا کیا کہا کرتی تھیں۔
اس وقت اپوزیشن میڈیا کو آزاد دیکھنا چاہتی تھی جبکہ حکومت کو میڈیا پر ہونے والی جائز تنقید زہر لگتی تھی ۔ حکومت بدل گئی ، باریاں بدل گئیں اور کل کے تخت نشین کچھ جیل اور بعض اپوزیشن بنچز پر پہنچ گئے جبکہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں سوائے جے یو آئی تخت نشین ہوگئیں اور اب ان جماعتوں کو میڈیا زہر لگتا ہے۔ اب یہ جماعتیں تنقید کرنے والوں کو ملک دشمن اور مجرم سمجھتی ہیں۔
معاشرے میں جھوٹی خبروں اور بے جا الزامات کی بھرمار کا روک تھام ازحد ضروری ہے لیکن اس سے پہلے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جانب سے کیے جانے والے جھوٹے وعدوں اور دعووں پر بھی کوئی سزا ہونی چاہیے۔ سیاستدانوں پر لگنے والے الزامات پرمجرموں کو سزا ضرور دیں مگر اس سے پہلےسیاست دان خود ایک دوسری کی پکڑیاں اچھالنا بند کریں۔ من گھڑت خبروں پر لوگوں کو جرمانہ ضرور کریں مگر اس سے پہلے سیاست دان ایک دوسرے کیخلاف من گھڑت مقدمات بنانے سے خود اجتناب کریں ۔ آپ بدلیں گے تو معاشرے بھی بدلے گا۔
سیاستدان جب شام کو ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ایک دوسروں پر لفظی وار کرنے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات دست و گریبان ہوجاتے ہیں تو خبر اس وقت جنم لیتی ہے۔ بھلا ایسی خبروں پر صحافی یا یوٹیوبر سچ جھوٹ کا پیمانہ
کہاں سے لائے،اگر کوئی رپورٹر کہتا ہے الف کو تھپڑ پڑا ہے تو ب خوش ہوجاتا ہے، اگر وہ کہے ب کو زور کا مکا پڑا ہے تو الف اسی صحافی کو سچا صحافی قرار دیتا ہے۔
اس وقت ملک کی تمام جماعتوں نے میڈیا سیل بنا رکھے ہیں۔ تمام جماعتیں سوشل میڈیا پر فعال ہیں اور صحافیوں اور قلم کاروں کو انہیں سیلز سے خبروں کا زخیرہ ملتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے میڈیا سلز ہی نفرت پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہیں سے الزامات کا سیلاب جاری ہوتا ہے، بدتمیزی کا طوفان برپا ہوتا ہے ۔انہی سیلز سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ شروع ہوجا تا ہے۔ ایک عام صحافی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے کہ وہ مختلف اوقات و واقعات کی فوٹیجز سرچ کرکے ،پھر انہیں کھنگال کر کٹ کرکے ایک ایسی ویڈیو تیارکرے جو کسی سیاستدان کیخلاف ہو۔ یہ کام محنت طلب ہے اور اس میں وقت بہت لگتا ہے۔یہ کام منظم سسٹم کے بغیر ممکن نہیں۔ ہاں البتہ اس سے بھی انکار نہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ہم خیال صحافی اور بعض اینکرحضرات بھی معاونت کرتے ہیں۔ اور ان صحافیوں اور اینکرزکو قد کاٹ کے مطابق نقدی کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ پھر چاہیں وہ بیرون ملک دورے ہوں یا عیدوں پر زردلفافے۔
تو عرض ہے ہتک عزت قانون کی کوئی عزت رکھنی ہے تو برائے کرم اپنے اپنے میڈیا سیلپر سیلز کو تالے لگائیں تاکہ آپ کو کالے قوانین بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ایک اور دلچسپ اور توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ ہتک عزت جیسے قوانین پر صحافیوں سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہی شور مچاتی ہیں۔ بظاہر صحافیوں کو ان قوانین کیخلاف صف آرا ہونا چاہیے لیکن حقیقی صحافی پہلے ہی خبر کا تقدس اور ایتھکس جانتا ہے۔ وہ معاشرے کے اقدار اور ملک کی سلامتی کو ملحوض رکھ کر ہی کوئی اسٹوری فائل کرتا ہے الا بعض مفاد پرست عناصر کے۔
تو سیاسی جماعتیں شورکیوں مچاتی ہے؟ قانون میڈیا سے متعلق ہے تو سیاستدانوں کو تکلیف کیوں ہوتی ہے ۔اس کی وجہ بھی یہی میڈیا سیلزہے جہاں سے نفرت انگیز مواد جاری ہوکر میڈیا تک پہنچ جاتا ہے۔ اور یہ مواد سب سے پہلے یا تو سیاسی جماعتوں کے اپنے صحافی رفقا یا پھر یوٹیوبرز کو جاری کیا جاتا ہے تاکہ یہ مواد خبر کی شکل اختیار کرسکے۔ اسی کو بعد میں فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کہا جاتا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کی جانب سے میڈیا کی آرڈ میں قوانین کو لاگو کرنے کا سلسلہ پی ٹی آئی کے دور میں شروع ہوا جس کی اب تکمیل مسلم لیگ ن کررہی ہے۔ یہ کپتان کا ادھورا مشن تھا جسے اب مریم سرکار خوشی خوشی پورا کررہی ہے۔