

اگر قومیں صرف "فحاشی و بے راہ روی” سے تباہ ہوتی تو سب سے پہلے امریکا اور یورپ تباہ ہوتا۔ قومیں ظُلم، نا انصافی اور اِنتہا پسندی اور بے حسی سے تباہ ہوتی ہیں۔۔
آزاد کشمیر میں موجودہ ریاستی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس وقت تمام سٹیک ہولڈرز پارٹیز کو مفادت و اختلافات بھلا ایک ٹیبل پر بیٹھنا چائیے اگر نہ بیٹھیں توعوام اس بات کے لیے مجبور کریں، بٹھائیں اور وحدت کشمیر کے لیے مجبور کروائیں ،یقین جانیے اس وقت بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ اس معاملہ کو بھی سرفہرست رکھنا ہے جو اس سب کی جڑ ہے، ریاستی کی جبری اور غیر فطری تقسیم نے معاشی و معاشرتی ہزاروں مسائل کو جنم دیا۔
یہ بات ہم سب کو سچائی و ایمانداری سے تسلیم کرلیں چاہیے کہ اس تقسیم کے ذمہ دار ہم خود اہل جموں کشمیر ہیں۔ کسی بھی ریاست میں ہر مذہب ،رنگ اور نسل کے لوگ رہتے ہیں صرف مذہب کا سہارا لے کر دنیا کے سامنے ہم موثر سٹینڈ نہیں لے سکتے ہم سب جانتے ہیں کہ مسئلہ ریاست جموں کشمیر دو کروڑ انسانوں کی رائے دہی کا مسلہ ہے ۔یہاں کے عوام نے 77 سال سے ثابت کردیا کہ ریاست کے عوام دونوں فریقین کے ساتھ خوش اور مطمئن نہیں اور چاہتی ہے کہ کوئی تیسرا فریق اس مسلہ کو حل کرنے میں جموں کشمیر کا ساتھ دیں۔ اس بنیادی نقطہ کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت کریں ، عوام انہیں مجبور کریں سب سے پہلے تقسیم ختم کی جائے فیصلہ یہاں کی عوام کے مُطابق ہواور ریاستی عوام کی فلاح وخوشحالی اولین ترجیح ہو۔۔
اس وقت معیشت تیزی سے گرتی جا رہی بنگلا دیش کی کرنسی تین گنا ،اسی طرح بھارتی کرنسی بھی تقریبا اسی طرح مضبوط ہوتی جا رہی ہے ۔ہفتہ پہلے قائم ہونے والا مُلک جسے امارات اسلامی افغانستان اسکی کرنسی بھی پاکستانی کرنسی سے مضبوط دکھائی دے رہی اس وقت ان حالات میں عوام کو تو اہل رائے کو سوچنا چاہیے کہ وہ کسی نئے اندورنی معاملات کے متحمل نہیں ہوسکتے ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ کشمیریوں کو اپنا مسلہ خود دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع دینا چاہیے ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ اس وقت آزادکشمیر کو اندورنی خودمختاری دے کر ریاست کا مسلہ حل کرنا ہوگا۔ ۔۔
یہاں کے ایم ایل اے یا منسٹر کام نہیں کر رہے اگر انہوں نے اپنا کردار ادا کیا ہوتا تو آج لاکھوں کی تعداد میں اتنے عوام اپنے حقوق کے لیے نہ نکلتے تو عوام کے پاس حق ہے کے وہ اس مفاداتی اور چاپلوسی کے نظام کو ہٹا کر نیا عوامی نظام لائیں تب جا کر اس ریاست کا نظام بہتر ہو گا ۔یہ سب اپنے کرسی کی جنگ میں اسی وجہ سے ہیں کے عوام ان سے سواۓ نوکری اورسکیم کے کچھ طلب نہیں کرتی اور ہم وقتی مفادات اور ازم اور تعصب میں سوال ہی نہیں کرتے کےہمارا مسلہ حل کیوں نہیں ہورہا ؟ ملک کے وسائل کون بےتحاشاخرچ کرکے اپنی جائیدادیں بنائی اور عیاشیاں کی جاتی ہیں پہ براہ راست مہنگائی کا بوجھ عوام پہ ڈالا جاتا ہے۔؟؟
اس سب بری حالت کے ذمہ دار ہم عوام ہیں جن کو الحاق و خودمختاری میں تقسیم کر کے لڑایا جا رہا اور چند خاندان خود کرسی اور انا کے پیچھے عوام کو بےوقوف بنا رہے ہیں اور عوام ابھی بھی خواب غفلت میں زندہ باد،مردہ باد کے نعروں سے باہر نہیں نکل رہی۔۔۔
اب بچنےکا حل عوام کےپاس ہے وہ اس بےحسی اور دوغلے پن سے نکل کر حالات کی فکرکریں۔ ایسے ہر پروگرام کا بائیکاٹ کریں جو کسی اور کے حکم و بجٹ پہ کرکے اپنے مفادات اور مراعات حاصل کرنے کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔اب یہ قومی سوال بن چکا ہے کہ آنے والے دنوں میں آزادکشمیر کی باشعور عزم و ہمت والی عوام زندہ باد ،مردہ باد والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ شعوری عروج پہ پہنچی عوام ایسے جلدی زوال پذیر نہیں ہوگی۔